Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 11
وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ
وَلَيَعْلَمَنَّ : اور البتہ ضرور معلوم کریگا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَيَعْلَمَنَّ : اور البتہ ضرور معلوم کریگا الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق (جمع)
اور اللہ ایمان والوں کو بھی ممیز کرکے رہے گا اور منافقوں کو بھی ممیز کرکے رہے گا
وَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰـفِقِیْنَ ۔ (العنکبوت : 11) (اور اللہ ایمان والوں کو بھی ممیز کرکے رہے گا اور منافقوں کو بھی ممیز کرکے رہے گا۔ ) استقامت اہل ایمان کی قوت اور نفاق ہلاکت ہے حق و باطل کی آویزش میں حق کا اصل سرمایہ مخلصین کا وہ گروہ ہوتا ہے جو ایمان و عمل کی ہر آزمائش میں پورا اترتا ہے۔ اس لیے حق کے راستے پر چلنے والوں کے لیے سب سے زیادہ فکرمندی اس بات کی ہوتی ہے کہ ہماری صفوں میں کوئی کمزور عنصر شامل نہ ہونے پائے تاکہ اس قافلے کی منزل کھوٹی نہ ہونے پائے۔ اسلام چونکہ قافلہ حق کا وہ عنوان ہے جسے قیامت تک کے لیے روشنی دینا ہے۔ اس لیے پروردگار نے اسلام کو قبول کرنے والوں کو مسلسل ایسی آزمائشوں سے گزارا تاکہ وہ کندن بن کر نکلیں اور جو کٹھن ذمہ داری ان پر ڈالی جانے والی ہے اس میں سرمو فرق نہ آنے پائے۔ اس لیے پروردگار نے قدم قدم پر اس کا اہتمام فرمایا تاکہ مخلص مومنوں میں کہیں بھی نفاق کی پرچھائیں نہ پڑنے پائیں۔ پروردگار کبھی کسی کو نام لے کر منافق قرار نہیں دیتا، لیکن راہ حق میں پیش آنے والی مشکلات مومن اور منافق کو پوری طرح نمایاں کردیتی ہیں۔ اسلام چونکہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ سے انتساب کا سب سے بڑا ذریعہ بھی۔ بنا بریں یہ بات ازبس ضروری تھی کہ اس فرق و امتیاز میں کبھی فرق نہ آنے دیا جاتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی صفات کا لازمی تقاضا بنایا اور ہمیشہ اس پر عمل کیا گیا تاکہ کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنا مشکل نہ ہو۔ سورة آل عمران میں اس بات کو پوری طرح کھول کر بیان فرمایا گیا : مَاکَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَالْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَا اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَالْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ ” اللہ مومنوں کو ہرگز اس حالت میں رہنے دینے والا نہیں ہے جس میں تم اس وقت ہو کہ صادق الایمان اور منافق سب ملے جلے ہیں، وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ نمایاں کرکے رہے گا۔ “
Top