Ruh-ul-Quran - Yaseen : 11
اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ١ۚ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَّ اَجْرٍ كَرِیْمٍ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں تُنْذِرُ : تم ڈراتے ہو مَنِ : جو اتَّبَعَ : پیروی کرے الذِّكْرَ : کتاب نصیحت وَخَشِيَ : اور ڈرے الرَّحْمٰنَ : رحمن (اللہ) بِالْغَيْبِ ۚ : بن دیکھے فَبَشِّرْهُ : پس اسے خوشخبری دیں بِمَغْفِرَةٍ : بخشش کی وَّاَجْرٍ : اور اجر كَرِيْمٍ : اچھا
آپ تو اس شخص کو خبردار کرسکتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرے اور بےدیکھے خدائے رحمن سے ڈرے، سو ایسے لوگوں کو مغفرت اور باعزت صلہ کی بشارت دیجیے
اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ ج فَبَشِّرْہُ بِمَغْفِرَۃٍ وَّاَجْرٍکَرِیْمٍ ۔ (یٰسٓ: 11) (آپ تو اس شخص کو خبردار کرسکتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرے اور بےدیکھے خدائے رحمن سے ڈرے، سو ایسے لوگوں کو مغفرت اور باعزت صلہ کی بشارت دیجیے۔ ) اِنذار کے موثر ہونے کی شرائط جن لوگوں نے خواہشاتِ نفس کے اتباع اور خانہ ساز قسم کے نظریات اور تعصبات کو زندگی کا سرمایہ بنا رکھا ہے اور وہ اس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے کے لیے تیار نہیں آنحضرت ﷺ سے فرمایا گیا ہے کہ آپ ایسے لوگوں کے دلوں میں حق نہیں اتار سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سماع قبول اور قبولیتِ حق سے محروم کردیا ہے۔ ان کے ساتھ سر مارنا دیواروں سے سر ٹکرانے کے مترادف ہے۔ آپ کی دعوت و تبلیغ اور آپ کا انذار صرف اس شخص کے لیے موثر اور مفید ہوسکتا ہے جو ذکر کی پیروی کرتا ہے۔ ذکر سے مراد نصیحت بھی ہے اور یاد دہانی بھی اور ذکر قرآن کریم کے ذاتی اسماء میں سے ایک نام بھی ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جو شخص قرآن کریم کو سنتا ہے اور آپ کی نصیحت پر کان دھرتا ہے اور آپ کی یاد دہانی پر دلوں کے دروازے وا کرتا ہے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیتوں کو اتباعِ حق کا ذریعہ بناتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ خدائے رحمن سے ڈرتا ہے۔ اس کی خشیت سے اس کا دل دھڑکتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا خالق ومالک ہے۔ اور یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے میرے لیے بیشمار نعمتوں کا ایک خوان بچھا رکھا ہے اور اس کی رحمت ہمیشہ میرے شامل حال رہتی ہے۔ وہ میری آنکھوں سے غائب ضرور ہے لیکن میں اس کی رحمتوں سے کبھی دور نہیں ہوتا۔ اس کی ناراضگی کا اندیشہ اور اس کے عتاب کا خدشہ یہ میری زندگی کا اصل سرمایہ ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس کے لیے آپ کا انذار موثر اور مفید ہوسکتا ہے۔ ایسے شخص کو آپ مغفرت کی خوشخبری سنا دیجیے۔ اور یہ بشارت بھی دیجیے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اجر کریم سے نوازے گا۔ یوں تو اس کا اجر ہی انسانی اندازوں سے ماورا ہے لیکن جسے وہ خود کریم قرار دے اس کے بارے میں تو انسانی عقل و خرد کے پیمانے کچھ بھی اندازہ کرنے سے قاصر ہیں۔
Top