Ruh-ul-Quran - Yaseen : 77
اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الْاِنْسَانُ : انسان اَنَّا خَلَقْنٰهُ : کہ ہم نے پیدا کیا اس کو مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑالو مُّبِيْنٌ : کھلا
کیا انسان دیکھتا نہیں کہ ہم نے اس کو پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا تو پھر وہ ایک کھلا ہوا جھگڑالو بن کر کھڑا ہوگیا
اَوَلَمْ یَرَالْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰـہُ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِذَا ھُوَخَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ۔ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَّ نَسِیَ خَلْقَـہٗ ط قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ۔ (یٰسٓ: 77، 78) (کیا انسان دیکھتا نہیں کہ ہم نے اس کو پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا تو پھر وہ ایک کھلا ہوا جھگڑالو بن کر کھڑا ہوگیا۔ اور اس نے ہم پر ایک پھبتی چست کی اور اپنی پیدائش کو بھول گیا، کہتا ہے کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ وہ بوسیدہ ہوجائیں گی۔ ) مخالفین کو اوقات یاد دلائی گئی ہے تسلی کے مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ قریش اور دوسرے لوگ آپ کی مخالفت میں جو کچھ کہہ رہے ہیں اس سے آپ کو دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ جب کوئی انسان یا کوئی معاشرہ اخلاق کی حدود کو پامال کردیتا ہے اور ہدایت کی ہر بات سے منہ موڑ لیتا ہے تو ایسے معاشرے سے بڑی سے بڑی بات کا صدور بھی قابل تعجب نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کا حال یہ ہوگیا ہے کہ یہ اللہ کریم پر بھی پھبتیاں کسنے کی جسارت سے باز نہیں آتے۔ حالانکہ ان کی اپنی حیثیت یہ ہے کہ ان کا ہر چھوٹا بڑا آدمی گندے پانی کی ایک بوند سے پیدا ہوا، پھر ماں کے پیٹ میں بھی اسے خون سے غذا دی جاتی رہی ہے، پھر وہ پیدا ہوا تو ایک مضغہ گوشت کے سوا کچھ نہ تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے احسانات نے جیسے جیسے اس کو گراں بار کیا ویسے ویسے وہ اللہ تعالیٰ کا کھلم کھلا دشمن بنتا چلا گیا۔ اور دشمن بھی ایسا جس کی زبان کو کوئی روک نہیں۔ کسی عظمت کا خوف کسی بڑائی کا احساس اسے بڑی سے بڑی بات کہنے سے نہیں روکتا۔ اور ان ہی میں سے بعض لوگوں کی جرأت کا عالم یہ ہے کہ وہ اللہ کریم کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہیں جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت میں بھی شبہ ہے۔ وہ قیامت کے وقوع کو اس لیے خلاف عقل سمجھتے ہیں کہ اتنی بڑی تبدیلی اور اتنی بڑی تباہی اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بہت بڑی چیز ہے۔ ابن عباس ( رض) ، قتادہ ( رض) اور سعید بن جبیر ( رض) کی روایات سے ان لوگوں کے ہذیان اور جسارتوں کا اندازہ ہوتا ہے جن میں یہ واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ کفار مکہ کے سرداروں میں سے ایک شخص قبرستان سے کسی مردے کی ایک بوسیدہ ہڈی لیے ہوئے آگیا اور اس نے نبی کریم ﷺ کے سامنے اسے توڑ کر اور اس کے منتشر اجزاء ہوا میں اڑا کر آپ سے کہا : اے محمد ! ﷺ تم کہتے ہو کہ مردے پھر زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے۔ بتائو ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا ادنیٰ تصور بھی موجود ہو تو وہ کسی ایسی بےہودہ بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں اسی بات کا جواب دیا گیا ہے۔
Top