Ruh-ul-Quran - Yaseen : 81
اَوَ لَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ١ؐؕ بَلٰى١ۗ وَ هُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ
اَوَ : کیا لَيْسَ : نہیں الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین بِقٰدِرٍ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يَّخْلُقَ : وہ پیدا کرے مِثْلَهُمْ ڲ : ان جیسا بَلٰى ۤ : ہاں وَهُوَ : اور وہ الْخَلّٰقُ : بڑا پیدا کرنے والا الْعَلِيْمُ : دانا
کیا وہ ذات جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس بات پر قادر نہیں کہ وہ ان کی جیسی مخلوق پیدا کردے، کیوں نہیں، اور وہی اصل پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے
اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَھُمْ ط ص بَلٰی ق وَھُوَالْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ ۔ (یٰسٓ: 81) (کیا وہ ذات جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس بات پر قادر نہیں کہ وہ ان کی جیسی مخلوق پیدا کردے، کیوں نہیں، اور وہی اصل پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے۔ ) مسلَّمات سے دلیل سابقہ آیت کے مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے سوالیہ انداز میں فرمایا اور اس سوال کی بنیاد مشرکین کے مزعومات اور مسلَّمات پر رکھی۔ کیونکہ مشرکین اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ زمین اور آسمانوں کا پیدا کرنے والا بلکہ تمام کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اور اس کے سوا کسی میں یہ قدرت نہیں کہ وہ کائنات کی تخلیق کرسکے۔ چناچہ ان کے اس اعتقاد کو سوال کی صورت دیتے ہوئے فرمایا کہ کیا وہ ذات جس کے بارے میں تمہیں اعتراف ہے کہ وہ زمین اور آسمانوں کا خالق ہے اور کائنات کی ہر چیز اسی کی تخلیق سے وجود میں آئی ہے تو کیا وہ زمین اور آسمانوں اور کائنات کو بنانے کے بعد صفت تخلیق سے محروم ہوگیا یا وہ مسلسل تخلیق کے عمل سے تھک گیا اور تنگ آگیا ہے جبکہ کائنات پر غور و فکر کرنے والے اس بات کے داعی ہیں : یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون اگر اس کی صفت تخلیق ویسے ہی تروتازہ، شگفتہ اور شاداب ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ زمین و آسمان کو تباہ کرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہ کرسکے جبکہ کسی چیز کو پہلی دفعہ وجود دینا دوسری دفعہ کے وجود دینے سے مشکل ہوتا ہے۔ لیکن جب ایک چیز کامیابی سے تخلیق کے مراحل سے گزر جاتی ہے تو پھر اس کا اعادہ کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ لیکن قیامت کے منکرین کا عجیب حال ہے کہ وہ کائنات کی ایک ایک چیز کا خالق اللہ تعالیٰ کو جانتے ہیں لیکن قیامت کی صورت میں تمام کائنات کی تباہی اور پھر ازسرنو زندگی بپا ہونے کو مستبعد از عقل سمجھتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا عالم یہ ہے کہ وہ صرف خالق ہی نہیں بلکہ خلّاق ہے۔ نہ اس کی تخلیقی قوت میں پہلے کوئی کمی تھی اور نہ اب ہے، اور نہ کبھی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح مخلوقات کی تباہی کے بعد وہ خوب جانتا ہے کہ کوئی شخص کس سرزمین میں مرا، اس کے اجزاء کہاں بکھر گئے، اور اس کے ذرات ہوا کے دوش پر کہاں کہاں پہنچے۔ کیونکہ وہ خلّاق ہونے کے ساتھ ساتھ علیم بھی ہے اور علیم میں بھی خلّاق کی طرح مبالغے کے ساتھ ساتھ استمرار اور دوام بھی پایا جاتا ہے۔
Top