Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 240
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَاۤ اُوْذِیَ فِی اللّٰهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِ١ؕ وَ لَئِنْ جَآءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّكَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ١ؕ اَوَ لَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ
وَمِنَ : اور سے۔ کچھ النَّاسِ : لوگ مَنْ يَّقُوْلُ : جو کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر فَاِذَآ : پھر جب اُوْذِيَ : ستائے گئے فِي اللّٰهِ : اللہ (کی راہ) میں جَعَلَ : بنا لیا فِتْنَةَ : ستانا النَّاسِ : لوگ كَعَذَابِ : جیسے عذاب اللّٰهِ : اللہ وَلَئِنْ : اور اگر جَآءَ : آئے نَصْرٌ : کوئی مدد مِّنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب سے لَيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہتے ہیں اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ اَوَلَيْسَ : کیا نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ بِاَعْلَمَ : خوب جاننے والا بِمَا : وہ جو فِيْ صُدُوْرِ : سینوں (دلوں) میں الْعٰلَمِيْنَ : جہان
سزاواروں میں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو زبانی کلامی تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر لیکن جب اللہ کی راہ میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لوگوں کی اس ایذا رسانی کو اللہ کے عذاب کے برابر قرار دینے لگتے ہیں اور اگر کبھی مسلمانوں کو تیرے رب کی جانب سے کوئی مدد پہنچ جائے تو وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ صاحب ! ہم بھی تو تمہارے ساتھ تھے کیا اللہ کو وہ سب کچھ پوری طرح معلوم نہیں جو جہاں والوں کے دلوں میں ہے ؟
8 منافقوں اور کمزور ایمان والوں کا حال : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ایسے لوگوں کا حال یہ ہے کہ اپنے اسلام و ایمان کے بلند بانگ دعو وں کے باوجود جب ان کو راہ حق میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ایسے لوگ لوگوں کی ایذا رسانی کو اللہ کے عذاب کے برابر قرار دینے لگتے ہیں "۔ اور دنیاوی تکلیف کے مقابلے میں آخرت کے عذاب کو قبول کرلیتے ہیں حالانکہ آخرت کے عذاب کے مقابلے میں دنیا کی ان تکلیفوں اور عذابوں کی کوئی حقیقت اور حیثیت ہی نہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کہ دنیاوی تکلیف و پریشانی ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرحال فانی اور چند روزہ ہے جبکہ آخرت کا عذاب دائمی اور بڑا ہی ہولناک ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس میں ان منافقوں اور کمزور لوگوں کے ایمان کا حال بیان فرمایا گیا ہے جن کو ایمان میں رسوخ حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اس طرح کی کسی ابتلاء و آزمائش سے فوری گھبرا اٹھتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ حالانکہ دنیاوی عذاب کی حیثیت و نوعیت اخروی عذاب کے مقابلے میں ایک ابتلاء و آزمائش سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اسی لیے یہاں پر اس کو عذاب کی بجائے فتنہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ جبکہ آخرت کا عذاب بہرحال عذاب ہوگا۔ اس لیے اس کو عذاب کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 9 اللہ سے کچھ چھپانا ممکن نہیں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اگر مسلمانوں کو آپ کے رب کی طرف سے کوئی مدد پہنچ جائے تو ایسے لوگ بڑے زور و شور سے دعوے کرتے ہیں کہ صاحب ہم بھی تو آپ کے ساتھ تھے۔ تو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا اللہ وہ سب کچھ نہیں جانتا جو لوگوں کے سینوں کے اندر ہے ؟ "۔ یعنی دنیا والوں سے تمہارا دھوکہ اگر چل بھی جائے تو اللہ کے یہاں کیونکر چل سکتا ہے جو کہ دلوں کی باتوں اور چھپے رازوں کو جاننے والا ہے۔ سو استفہام یہاں پر تقریری ہے۔ یعنی ہاں اللہ وہ سب کچھ جانتا ہے اور پوری طرح جانتا ہے جو ان کے سینوں کے اندر ہے کہ اس سے کسی کے قلب و باطن کی کوئی حالت اور کیفیت کسی بھی طرح اور کسی بھی درجے میں چھپ نہیں سکتی۔ تو پھر عقل و خرد کا تقاضا یہ تھا اور ہے کہ دکھلاوے اور ظاہر داری کی بجائے ہمیشہ اور ہر حال میں اس کی کوشش کی جائے کہ اس " علیم بذات الصدور " سے ہمارا معاملہ صحیح رہے جس سے کوئی بات مخفی نہیں رہ سکتی اور جسکے حضور حاضر ہو کر ہمیں زندگی بھر کے کیے کرائے کا حساب دینا اور اس کا صلہ اور پھل پانا ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا اور خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔
Top