Tafseer-e-Saadi - An-Nisaa : 49
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ؕ بَلِ اللّٰهُ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُزَكُّوْنَ : پاک۔ مقدس کہتے ہیں اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ کو بَلِ : بلکہ اللّٰهُ : اللہ يُزَكِّيْ : مقدس بناتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور ان پر ظلم نہ ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے تئیں پاکیزہ کہتے ہیں ؟ نہیں بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے پاکیزہ کرتا ہے اور ان پر دھاگے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا
آیت 49 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر تعجب کا اظہار اور ان یہود و نصاریٰ وغیرہ کے لئے زجر و توبیخ ہے جو اپنے آپ کو پاک گردانتے ہیں۔ یہ زجر و توبیخ ہر اس شخص کے لئے ہے جو کسی ایسے امر کا دعویٰ کر کے اپنے آپ کو پاک گردانتا ہے جو اس میں نہیں ہے۔ یہود و نصاری یہ دعویٰ کرتے تھے (نحن ابنوا اللہ واحبآء ہ) (المائدۃ :18/5) ” ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں “۔ وہ کہا کرتے تھے (لن یدخل الجنۃ الا من کان ھوداً او نصریٰ ) (البقر 1:111/2) ” جنت میں صرف وہی داخل ہوگا جو یہودی یا نصرانی ہوگا۔ “ یہ ان کا مجرد دعویٰ ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔ دلیل تو وہ ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرمائی ہے : (بلی من اسلم وجھہ للہ وھو محسن فلہ اجرہ عند ربہ ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون) (البقرہ :112/2) ” کیوں نہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور نیکو کار بھی ہو۔ تو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔ ان کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم۔ “ یہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے پاک کیا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (بل اللہ یزکی من یشآء) ” بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے پاک کرتا ہیذ یعنی ایمان و عمل صالح کے ساتھ، اخلاق رزذیلہ ترک کرنے اور الخقا حسنہ کو اختیار کرنے کی بنا پر اللہ تعالیٰ ان کو پاک کرتا ہے۔ رہے یہ لوگ تو اگرچہ بزعم خود انہوں نے اپنے آپ کو پاک کیا ہوا ہے اور سمجھتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں اور صرف وہی ثواب کے مستحق ہیں مگر وہ جھوٹے ہیں اور وہ اپنے ظلم اور کفر کے سبب سے پاک لوگوں کی خصوصیات اور خصائل سے بےبہرہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان خصوصیات سے محروم کر کے ظلم نہیں کیا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ولا یظلمون قتیلاً ) ” ان پر ذرہ بھر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ “ یہ عموم کے تحقق کے لئے ہے یعنی ان کے ساتھ اس باریک دھاگے جتنا بھی ظلم نہیں ہوگا جو کھجور کی گٹھلی کے ساتھ لگا ہوتا ہے یا ہاتھ رگڑنے سے جو میل کی باریک بتی سی بنتی ہے اس مقدار میں بھی ان پر ظلم نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (انر کیف یفترون علی اللہ الکذب) ” دیکھو یہ لوگ کس طرح اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں “ یعنی انہوں نے اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ کر کے اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی کی ہے۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ پر سب سے بڑا بہتان ہے اور ان کے تزکیہ نفوس کا مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا موقف حق اور مسلمانوں کا موقف باطل ہے اور یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ حق کو باطل اور باطل کو حق بنانا حقائق کو بدلنے کے مترادف ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وکفی بہ اثما مبیناً ) ” اور یہ (حرکت) صریح گناہ ہونے کے لئے کافی ہے “ یعنی یہ ظاہر اور کھلا گناہ ہے جو سخت عقوبت اور درد ناک عذاب کا موجب ہے۔
Top