Tadabbur-e-Quran - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
اور یاد کرو، جب کہ موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا کہ میں چلتا رہوں گا یہاں تک کہ یا تو دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر پہنچ جاؤں یا اسی طرح سال ہا سال چلتا ہی رہوں گا
آگے کا مضمون۔ آیات 60 تا 82:۔ صبر کی عقائدی بنیادیں : پیچھے نبی کریم ﷺ کو اعدائے حق اور مستکبرین کے مقابل میں جس صبر و استقامت کی تلقین کی گئی ہے آگے کی آیات میں اسی مضمون کی تکمیل کردی گئی ہے۔ گویا سورة اس مقام پر اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی۔ صبر کے متعلق یہ بات یاد رکھیے کہ یہ کوئی نفی چیز نہیں بلکہ ایک مثبت حقیقت ہے۔ اسی پر تمام حق کے قیا و بقا کا انحصار ہے۔ جس کے اندر یہ صف راسخ نہ ہو وہ نہ تو خدا کا حق ادا کرسکتا ہے نہ بندوں کا۔ اس صفت کو راسخ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی عقائدی بنیادیں دل کے اندر راسخ ہوں۔ جب تک یہ بنیادیں اچھی طرح راسخ نہ ہوں صبر کو اوپر سے چپکایا نہیں جاسکتا۔ یہ عقائدی بنیادیں تین ہیں۔ ایک یہ کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی واقع ہوتا ہے سب خدا کے اذن اور اس کے ارادہ و مشیت کے تحت واقع ہوتا ہے۔ اس کے اذن و ارادہ کے بغیر ایک ذر بھی اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرسکتا۔ دوسری یہ کہ خدا خیر مطلق اور حکیم ہے اس وجہ سے اس کا کوئی ارادہ بھی خیر اور حکمت سے خالی نہیں ہوتا وہ اگر اہل باطل کو ڈھیل دیتا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ باطل سے محبت کرتا یا اس کے آگے بےبس اور مجبور ہے بلکہ اس کے اندر بھی وہ کسی خیر عظیم کی پر وش کرتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ اہل حق کو مصائب و آلام میں مبتلا کرتا ہے تو اس لیے نہیں کہ اسے اہل حق کے مصائب سے کوئی دلچسپی ہے بلکہ وہ اس طرح ان کے لیے کسی بڑے خیر کی راہیں کھولتا ہے۔ تیسری یہ کہ انسان کے علم کی رسائی محدود ہے اس وجہ سے وہ خدا کے ہر ارادہ کی حکمت کو اس دنیا میں نہیں معلوم کرسکتا۔ اس کے ارادوں کے تمام اسرار صرف آخرت ہی میں بےنقاب ہوں گے۔ اس دنیا میں انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ خدا کے تمام فیصلوں پر صابر و شاکر رہتے ہوئے اپنا فرض ادا کرے اور مطمئن رہے کہ آج کی تلخیوں کے اندر جو شیرینی چھپی ہوئی ہے اس کے روح افزا جام انشاء اللہ کل سامنے آئیں گے۔ حضرت موسیٰ کا ایک تربیتی سفر : اس کائنات کے اس رمز کو سمجھنے کے لیے یہاں حضرت موسیٰ کے ایک ترتبیتی سفر کی سرگزت سنائی گئی ہے۔ حکمت کے اسرار واقعاتِ زندگی میں جس طرح مصور ہو کر سامنے آتے ہیں مجرد اظہار وبیان سے اس طرح سامنے نہیں آتے۔ حضرت موسیٰ کو اصلاح و تربیت کے لیے جو قوم ملی تھی وہ نہایت کمزور اور بودی تھی اور جس دشمن سے ان کا سابقہ تھا وہ نہایت جبار وقہار تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی حکمت مقتضی ہوئی کہ وہ صبر میں نہایت راسخ و پختہ ہوجائیں تاکہ مخالف حالات کا پورے عزم و جزم کے ساتھ مقابلہ کرسکیں۔ چناچہ خدا نے ان کو اپنے ایک ایسے بندے کے پاس بھیجا جس کو اس نے کچھ خاص علم عطا فرمایا تھا۔ اس بندے نے حضرت موسیٰ پر خدا کے حکم سے اس کے ارادوں کے چند اسرار بےنقاب کیے جو تربیتِ صبر و رضا کے پہلو سے نہایت اہم تھے۔ مفسرین کی ایک غلط فہمی : ہمارے نزدیک حضرت موسیٰ کے اس سفر کا مقصد یہی تھا لیکن بعض مفسرین نے معلوم نہیں کہاں سے یہ فضول سی بات لکھ دی ہے کہ نعوذ باللہ حضرت موسیٰ ترنگ میں آکر کسی دن یہ کہہ بیٹھے تھے کہ اس وقت مجھ سے بڑا عالم کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بطور تادیب و تنبیہ ان کو اپنے ایک بندے کے پاس بھیجا کہ وہ دیکھ لیں کہ ان سے بھی بڑا ایک عالم موجود ہے۔ اول تو حضرت موسیٰ ایسی بےمحل بات فرماتے کیوں اور اگر انہوں نے فرمائی تو یہ کوئی غلط بات تو نہیں فرمائی۔ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ نبی سب سے بڑا عالم ہوتا ہے اور وہ اپنی پوری قوم کے سامنے اس حقیقت کا آشکارا طور پر اعلان بھی کرتا ہے۔ یہ بات ہر نبی نے اپنی قوم سے کہی ہے۔ انی اعلم من اللہ ما لا تعلمون (اے میر قوم کے لوگو ! میں خدا کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے)۔ لیکن کسی نبی کی یہ بات نہ تو فخر و تعلی پر محمول کی گئی اور نہ اس کی بنا پر وہ مستوجب تادیب قرار پایا تو آخر حضرت موسیٰ ہی اس کے سبب سے کیوں سزاوار تنبیہ ٹھہرے ؟ بہرحال یہ شان نزول بالکل لا یعنی ہے۔ اصل حقیقت وہی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا۔ اب اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمائیے۔ وَاِذْ قَالَ مُوْسٰي لِفَتٰىهُ لَآ اَبْرَحُ حَتّٰى اَبْلُغَ مَجْـمَعَ الْبَحْرَيْنِ اَوْ اَمْضِيَ حُقُبًا۔ " فتی " کا مفہوم : " فتی " کا ترجمہ میں نے " خامد " نوجوان " یا " لر کے " کے بجائے شاگرد کیا ہے۔ اس میں فی الجملہ " جوان " ہونے کا مفہوم بھی آجاتا ہے اور حضرت موسیٰ کے ساتھ اس جوان کے تعلق کی نوعیت بھی واضح ہوجاتی ہے۔ حضرت موسیٰ نے اس مہم میں رفاقت کے لیے جن الفاظ میں اس جوان سے استمزاج کیا ہے۔ اس سے یہی متبادر ہوتا ہے کہ اس کی حیثیت محض ایک نوکر کی نہیں بلکہ ایک نوجوان صحابی کی تھی جو حضرت موسیٰ کے شاگرد بھی تھے اور ان کی خدت بھی کرتے تھے۔ " مجمع البحرن " سے مراد : " مجمع البحرین " سے مراد غالبا خلیج عقبہ اور سویز کا وہ مقام اتصال ہے جہاں سے بعد کے مراحل میں حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کے ساتھ گزرے ہیں۔ " حقب " کا مفہوم : " حقب " کے معنی زمانہ، سال، 80 سال یا اس سے بھی زیادہ مدت کے ہیں۔ حضرت موسیٰ کو اس سفر کی ہدایت ظاہر ہے کہ وحی کے ذریعہ سے ہوئی ہوگی۔ انہوں نے اس کا اظہار اپنے شاگرد سے کیا اور ان کے لفظ لفظ سے اس سفر کے لیے ان کا عزم و جزم اور ذوق و شوق ٹیک رہا ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں یا تو مجمع البحرین میں اس مقام تک پہنچ جاؤں گا جہاں پہنچنے کے لیے مجھے ہدایت ہوئی ہے یا پھر اسی منزل مقصود کی تلاش میں سالہا سال گزار دوں گا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ہمت ہے تو اس سفر میں ساتھ دو ورنہ یہ بندہ تو بہرحال اس محبوب سفر پر روانہ ہورہا ہے اور اس عزم کے ساتھ روانہ ہورہا ہے کہ یا تن رسد بجانا یا جاں ز ترن بر آید۔
Top