Tadabbur-e-Quran - Al-Maaida : 61
وَ اِذَا جَآءُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ قَدْ دَّخَلُوْا بِالْكُفْرِ وَ هُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا كَانُوْا یَكْتُمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب جَآءُوْكُمْ : تمہارے پاس آئیں قَالُوْٓا : کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَقَدْ دَّخَلُوْا : حالانکہ وہ داخل ہوئے ( آئے) بِالْكُفْرِ : کفر کی حالت میں وَهُمْ : اور وہ قَدْ خَرَجُوْا : نکلے چلے گئے بِهٖ : اس (کفر) کے ساتھ وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : وہ جو كَانُوْا : تھے يَكْتُمُوْنَ : چھپاتے
اور جب یہ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو ایمان لائے ہوئے ہیں حالانکہ وہ کفر کے ساتھ داخل ہوتے ہیں اور اسی کے ساتھ نکلتے ہیں، اور اللہ خوب واقف ہے اس چیز سے جس کو وہ چھپا رہے ہیں
تفسیر آیت 61 تا 63: وَاِذَا جَاۗءُوْكُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَقَدْ دَّخَلُوْا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِهٖ ۭ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا كَانُوْا يَكْتُمُوْنَ۔ وَتَرٰى كَثِيْرًا مِّنْهُمْ يُسَارِعُوْنَ فِي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۭ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۔ لَوْلَا يَنْھٰىهُمُ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَاَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۭلَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ۔ یہود کا ایک مخصوص گروہ : ان آیات کے تمام مشکل الفاظ پیچھے زیر بحث آچکے ہیں۔ یہ بھی یہود ہی کا ذکر ہے لیکن یہ یہود کا وہ گروہ ہے جس کا ذکر بقرہ کی آیات 8 تا 16 میں ہوا ہے۔ وہاں ہم تفصیل کے ساتھ بتا چکے ہیں کہ یہود میں ایک گروہ ایسے لوگ کا بھی تھا جو مسلمانوں کی مجالس میں آتے تو کہتے کہ مومن تو ہم بھی ہیں، خدا اور رسول اور خدا کی کتاب پر ہمارا بھی ایمان ہے، پھر مسلمان ہمیں مومن کیوں نہیں تسلیم کرتے۔ یہ بات وہ اس ذہنی تحفظ کے ساتھ کہتے کہ اگر ہم محمد اور ان کی پیش کردہ کتاب کو نہیں مانتے تو اس سے کیا فرق پیدا ہوتا ہے۔ آخر ہمارے پیغمبر اور ہماری کتاب بھی تو خدا ہی کے بھیجے ہوئے ہیں۔ عام مسلمان ان کی اس طرح کی باتوں سے دھوکے میں پڑتے اور ان سے ایک قسم کے حسن ظن میں مبتلا ہوجاتے چناچہ اسی بنا پر قرآن نے ان کی اس بات کو " مخادعت " سے تعبیر کیا ہے۔ جب ان سے یہ کہا جاتا کہ اگر مومن ہو تو سیدھے سیدھے مسلمانوں کی طرح کیوں ایمان نہیں لاتے یعنی محمد ﷺ اور قرآن کا اقرار کیوں نہیں کرتے تو اس پر برہم ہوجاتے اور کہتے ہم بیوقوفوں کی طرح کی حرکت نہیں کرتے۔ ہم ملک میں صلح و امن چاہتے ہیں اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ مسلمان اگر کسی کو پیغمبر ماننا چاہتے ہیں تو مانیں لیکن ہمارے لیے اس کا مانن ضروری نہ قرار دیں۔ اس کو مانے بغیر ہمارا دینی مقام و مرتبہ تسلیم کریں۔ اگر مسلمان اپنے سوا سب کو کافر قرار دیں گے تو اس سے ملک میں فساد برپا ہوگا جس میں سب کا نقصان ہے۔ بقرہ کی مذکورہ بالا آیات کے تحت ہم یہ بھی بیان کرچکے ہیں کہ اشتراک ایمان کا یہ وہی نظریہ ہے جو وحدت ادیان کے عنوان سے تقسیم ہند سے پہلے ہمارے ملک میں بھی پیش ہوچکا اور اب بھی وقتاً فوقتاً اس کی صدائے باز گشت سنائی دیتی رہتی ہے۔ زیر بحث آیات میں یہود کے اسی گروہ کا ذکر ہے۔ فرمایا کہ جب یہ تماہری مجالس میں آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی مسلمان ہیں۔ حالانکہ جس کفر کے ساتھ وہ آتے ہیں اسی کفر کے ساتھ وہ واپس جاتے ہیں، ایمان نہ داخل ہوتے وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے نہ نکلتے وقت، بس تمہارے سامنے دعوی کرکے تمہیں دھوکا دینا چاہتے ہیں۔ دلوں میں ان کے جو کچھ ہے وہ اللہ کو خوب معلوم ہے۔ بقرہ کی محولہ بالا آیات میں قرآن نے ان کے دلوں کے اس بھید کو کھول بھی دیا ہے وہ اللہ کو خوب معلوم ہے۔ بقرہ کی محولہ بالا آیات میں قرآن نے ان کے دلوں کے اس بھید کو کھول بھی دیا ہے۔ اس وجہ سے ہماری تفسیر کی روشنی میں ان آیات پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ یہود کے دعوائے ایمان کی پردہ دری : تری کثیرا منہم الایۃ، یہ قرآن نے ان کے دعوائے ایمان کی قلعی کھولی ہے کہ ایمان کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ رات دن ان کی بھاگ دوڑ حق تلفی، تعدی اور حرام خوری کی راہ میں ہے۔ یہاں " یسارعون " کا لفظ خاص طور پر نگاہ میں رکھنے کا ہے۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ایمان کے ساتھ کسی ظلم و زیادتی کا صادر ہوجانا یا کسی حرام سے آلودہ ہوجانا تو بعید نہیں ہے لیکن حرام خوری ہی کسی کا اوڑھنا بچھونا بن جائے اور اس کی ہر وقت کی تگ و دو ظلم و زیادتی ہی کی راہ میں ہو تو بہت ہی برا عمل ہے یہ جو ایمان کے دعوے کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس بات کو دوسرے مقام میں یوں بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر ان کا ایمان انہی باتوں کا حکم دے رہا ہے تو بہت ہی بری باتوں کا حکم دے رہا ہے۔ یہود کے علماء اور فقہا کو سرزنش : لولا ینھٰھم الربانیون۔۔۔ الایۃ، یہ ان کے علما اور فقہا کو سرزنش ہے کہ آخر وہ ان برائیوں اور حرام خوریوں سے ان کو روکتے کیوں نہیں ؟ اس سے علماء کے فریضہ منصبی کی وضاحت بھی ہو رہی ہے اور یہود کی سوسائٹی اس وقت زوال کی جس آخری حد کو پہنچ چکی تھی اس پر بھی روشنی پڑ رہی ہے۔ جب مریض مرض کے آخری مرحلہ میں داخل ہوجائے اور طبیب موت ہی کو شفا سمجھنے لگ جائیں تو اس مریض کی ہلاکت میں کیا شبہ رہا ؟ قولہم الاثم سے مراد وہ گناہ کی باتیں بھی ہیں جن میں سے بعض کا ذکر اوپر گزرا اور بعض کا آگے آرہا ہے اور وہ جھوٹی شہادت بھی ہے جس نے یہود کے اندر ایک کاروبار کی شکل اختیار کرلی تھی، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق و عدل کے گواہ بنائے گئے تھے۔ علمائے یہود کی جس اخلاقی و ایمانی موت پر یہاں ملامت فرمائی ہے، آیت کا سیاق دلیل ہے کہ ان کے اوپر یہ موت اس وجہ سے طاری ہوئی کہ وہ خود ان افعال کے مرتکب ہوئے جن میں ان کی قوم کی اکثریت مبتلا تھی۔ ایسی حالت میں ان کی زبانیں ان برائیوں کے خلاف کس طرح کھل سکتی تھیں۔
Top