Tafheem-ul-Quran - Yaseen : 48
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں مَتٰى : کب ھٰذَا الْوَعْدُ : یہ وعدہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
44 یہ لوگ کہتے ہیں کہ”یہ قیامت کی دھمکی آخر کب پُوری ہوگی؟ بتاوٴ اگر تم سچے ہو۔“ 45
سورة یٰسٓ 44 توحید کے بعد دوسرا مسئلہ جس پر نبی ﷺ اور کفار کے درمیان نزاع برپا تھی وہ آخرت کا مسئلہ تھا۔ اس کے متعلق عقلی دلائل تو آگے چل کر خاتمہ کلام پر دیے گئے ہیں۔ مگر دلائل دینے سے پہلے یہاں اس مسئلے کو لے کر عالم آخرت کا ایک عبرتناک نقشہ ان کے سامنے کھینچا گیا ہے تاکہ انہیں یہ معلوم ہو کہ جس چیز کا وہ انکار کر رہے ہیں وہ ان کے انکار سے ٹلنے والی نہیں ہے بلکہ لا محالہ ایک روز ان حالات سے انہیں دوچار ہونا ہے۔ سورة یٰسٓ 45 اس سوال کا مطلب یہ نہ تھا کہ وہ لوگ فی الواقع قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے تھے، اور اگر مثلاً ان کو یہ بتادیا جاتا کہ وہ فلاں سنہ میں فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو پیش آئے گی تو ان کا شک رفع ہوجاتا اور وہ اسے مان لیتے۔ دراصل اس طرح کے سوالات وہ محض کج بحثی کے لیے چیلنج کے انداز میں کرتے تھے اور ان کا مدعا یہ کہنا تھا کہ کوئی قیامت ویامت نہیں آنی ہے، تم خواہ مخواہ ہمیں اس کے ڈراوے دیتے ہو۔ اسی بنا پر ان کے جواب میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ قیامت فلاں روز آئے گی، بلکہ انہیں یہ بتایا گیا کہ وہ آئے گی اور اس شان سے آئے گی۔
Top