Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 160
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَ بِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَثِیْرًاۙ
فَبِظُلْمٍ : سو ظلم کے سبب مِّنَ : سے الَّذِيْنَ هَادُوْا : جو یہودی ہوئے (یہودی) حَرَّمْنَا : ہم نے حرام کردیا عَلَيْهِمْ : ان پر طَيِّبٰتٍ : پاک چیزیں اُحِلَّتْ : حلال تھیں لَهُمْ : ان کے لیے وَبِصَدِّهِمْ : اور ان کے روکنے کی وجہ سے عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ كَثِيْرًا : بہت
تو ہم نے یہودیوں کے ظلموں کے سبب (بہت سی) پاکیزہ چیزیں جو ان کو حلال تھیں ان کو حرام کردیں اور اس سبب سے بھی کہ وہ اکثر خدا کے راستے سے (لوگوں کو) روکتے تھے۔
(160 ۔ 162) ۔ یہود کی طرح طرح کی سرکشی کے سبب سے حلال چیریں حرام ہوگئیں ان کی تفصیل سورة انعام میں آئے گی۔ کہ گائے بکری کی چربی وغیرہ یہود پر ان کی سرکشی کے سبب سے یہ چیزیں حرام ہوئی تھیں لیکن مشہور تفسیروں میں یہ تذکرہ کہیں نہیں ہے کہ کب اور کس نبی کے عہد میں یہ چیزیں یہود پر حرام ہوئیں۔ اس واسطے بعض مفسروں نے یہ کہا کہ خاص کسی نبی کے وقت میں یہ چیزیں حرام نہیں ہوئیں بلکہ جیسے جیسے یہود کی شرارت بڑھتی گئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد مختلف زمانوں میں یہ چیزیں ان پر حرام ہوتی گئیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کے مطابق علم پر ثابت قدم اور ایمان والے وہ لوگ ہیں جو یہود میں سے شریعت محمدی کے تابع اور پابند ہوگئے مثلاً جیسے عبداللہ بن سلام ؓ و ثعلبہ بن سعید ؓ وغیرہ عبد اللہ بن مسعود ؓ کی قرأت اور ان کے مصحف میں وَالْمُقِیْمِیْنَ کی جگہ وَالْمُقِیْمُوْنَ ہے اور قیاس بھی اسی کا مقتضی ہے۔ لیکن اور سب مصحفوں میں وَالْمُقِیْمِیْنَ ہے ابوجعفر ابن جریر نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کلام عرب میں جس چیز کو خاص طور پر ذکر کرنا مقصود ہوتا ہے اس کو اس طرح بولا جاتا ہے اور آیت وَالْمُوْفُوْنَ بَعَہْدِہِمْ اِذَاعَاھَدُواوَالصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآ ئِ وَالضَّرَآ ئِ (177/2) کو اپنے کلام کی تائید میں حافظ ابن جریر (رح) نے پیش کیا ہے۔ بعض سلف سے جو یہ روایت ہے کہ وَالْمُقِیْمِیْنَ کی جگہ وَالصَّابِرُوْنَ کی جگہ وَالصَّابِرِیْنَ کاتبوں کی غلطی سے لکھا گیا ہے۔ حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اس روایت کا ضعف اپنی تفسیر میں اچھی طرح ثابت کردیا ہے 1۔
Top