Taiseer-ul-Quran - An-Nisaa : 20
وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ١ۙ وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَیْئًا١ؕ اَتَاْخُذُوْنَهٗ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا
وَاِنْ : اور اگر اَرَدْتُّمُ : تم چاہو اسْتِبْدَالَ : بدل لینا زَوْجٍ : ایک بی بی مَّكَانَ : جگہ (بدلے) زَوْجٍ : دوسری بی بی وَّاٰتَيْتُمْ : اور تم نے دیا ہے اِحْدٰىھُنَّ : ان میں سے ایک کو قِنْطَارًا : خزانہ فَلَا تَاْخُذُوْا : تو نہ (واپس) لو مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ اَتَاْخُذُوْنَهٗ : کیا تم وہ لیتے ہو بُھْتَانًا : بہتان وَّاِثْمًا : اور گناہ مُّبِيْنًا : صریح (کھلا)
اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چاہو اور تم نے اسے خواہ ڈھیر سا مال دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس 35 نہ لو۔ کیا تم اس پر بہتان رکھ کر اور صریح گناہ کے مرتکب ہو کر اس سے مال لینا چاہتے ہو ؟
35 خطلاق دیتے وقت عورت سے مال ہتھیانے کی کوشش :۔ یہاں دینے سے مراد صرف حق مہر نہیں۔ اس کے علاوہ بھی جو کچھ تم اپنی بیویوں کو دے چکے ہو۔ وہ ہرگز واپس نہ لینا چاہیے۔ بیوی کا تو خیر حق بھی ہوتا ہے۔ انسان اگر کسی دوسرے شخص کو کوئی چیز دے تو پھر اسے وہ واپس نہیں لینی چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے صدقہ (اور دوسری روایت کے مطابق اپنے ہبہ) کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے۔ (بخاری، کتاب الہبہ، باب ھبۃ الرجل لامراتہ والمرأۃ لزوجھا) اور یہ بہتان اور صریح گناہ اس لحاظ سے ہے کہ نکاح کے وقت تم نے بھری مجلس میں گواہوں کے سامنے حق مہر کی ادائیگی کا اقرار کیا تھا۔ لہذا عورت سے پورا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ یا ہبہ کردہ چیز واپس لینا یا واپس لینے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنا بدترین جرم ہے بلکہ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ اگر تم انہیں طلاق دیتے ہو تو طلاق دیتے وقت انہیں مزید کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کرو۔ چہ جائیکہ تم پہلے دیئے ہوئے میں سے بھی کچھ لینے کی کوشش کرو۔ (نیز اس سلسلہ میں اسی سورت کا حاشیہ نمبر 7 ملاحظہ فرمائیے)
Top