Urwatul-Wusqaa - Yaseen : 29
اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ خٰمِدُوْنَ
اِنْ كَانَتْ : نہ تھی اِلَّا : مگر صَيْحَةً : چنگھاڑ وَّاحِدَةً : ایک فَاِذَا : پس اچانک هُمْ : وہ خٰمِدُوْنَ : بجھ کر رہ گئے
پس صرف ایک ہولناک آواز تھی پس وہ سب کے سب اسی دم بجھ کر رہ گئے (جل کر کوئلہ ہوگئے)
ایک گرجدار چیخ سنائی دی گئی اور ایک جھٹکے میں ان کو بجھے ہوئے کوئلے بنا دیا گیا : 29۔ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی شان جلال نے اپنا کام اس تیزی کے ساتھ کیا کہ ایک طرف ان کے مظالم کی داستان سنائی دی جو انہوں نے اللہ کے اس بندے پر ڈھائے اور دوسری طرف ان کا کام تمام کردیا گیا اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا اور چشم زدن میں وہ بجھے ہوئے کوئلوں کی طرح اپنے ہی احاطوں میں پڑے ہوئے نظر آئے مطلب یہ ہے کہ ان کے کئے کے انجام میں ان کو اچانک خاک کا ڈھیر بناکر رکھ دیا گیا اور سنت اللہ کے مطابق وہ نیست ونابود ہوگئے یہاں تک کہ ان کا نام ونشان تک باقی نہ رہا اس طرح تین نبیوں کی دعوت کے نتیجہ میں جو ایک ایمان لایا اس نے نہ صرف اپنا نام ایمان لانے والی جماعتوں میں زندہ رکھا بلکہ اپنے مخالفین اور قاتلوں کو بھی ہلاک ہونے والی اس صفحہ ہستی سے مٹا دی جانے والی قوموں یا بستیوں میں داخل کرا دیا اور اس طرح اس کا واقعہ بھی ابدالاباد بیان کیے جانے والے ضروری ہے ایک تو یہ کہ وہ بےغرض اور کسی اجر یا مزدوری کے لالچ کے بغیر دین اسلام کا کام کرتا جائے دوسرا یہ کہ جس دعوت اور ہدایت کی طرف وہ اوروں کو بلا رہا ہے اس پر خود بھی عمل کرنے والا ہو ۔ اس کی اصل دعوت یہ ہے کہ وہ خود بھی اللہ تعالیٰ کا طلبگار ہے اور دوسروں کو بھی اللہ تعالیٰ سے ملا دینا چاہتا ہے تاکہ لوگ اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزاریں جیسے کسی نے کہا ہے کہ : کچھ اور مانگنا میرے مذہب میں کفر ہے لا اپنا ہاتھ دے میرے دست سوال میں : اس جگہ آیات کریمات میں جو واقعہ اصحاب القریہ کا بیان کیا جا رہا تھا وہ ختم ہوگیا ۔ اس واقعہ میں جو نصیحت کی باتیں ہمارے لیے رکھی گئی تھیں ان کا انداز تفسیر میں بالکل ختم کرکے رکھ دیا گیا اس کی نشاندہی کے لئے اس کا اختصار پیش خدمت ہے ۔ اصحاب القریہ یا اصحاب یس کے قصہ کا اختصار اور نصائح : قرآن کریم نے اس واقعہ کے متعلق جو کچھ ہم کو بتایا ہے وہ یہ ہے کہ ” (1) گزشتہ زمانہ “ میں (2) ” ایک بستی “ میں کفر وشرک اور شروفساد کو دور کرنے اور رشد وہدایت کا سبق دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دو پیغمبروں کو مبعوث کیا انہوں نے اہل قریہ کو حق کی تلقین کی اور صراط مستقیم کی جانب دعوت دی لیکن بستی والوں نے ان دونوں کو جھٹلایا تب اللہ تعالیٰ نے (3) ” ایک اور ہادی “ کا اضافہ کردیا اور وہ تین مل کر ایک جماعت ہوگئے اب ان تینوں نے ان کو یقین دلایا کہ بلاشبہ ہم اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں مگر انہوں نے نہ مانا اور ان کا مذاق اڑایا کہ تم بھی انسان اور ہم بھی انسان پھر تمہارے اندر کون سی عجیب بات ہے کہ تم پیغمبر بنا دیئے گئے ، یہ سب تمہار جھوٹ اور تمہاری سازش ہے انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ شاہد ہے کہ ہم جھوٹے نہیں ‘ وہ دانا وبینا ہے اور اس بات کو خوب جانتا ہے مگر تم لوگ پھر بھی نہیں مانتے تو ہمارا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ خدا کا پیغام تم تک پہنچا دیں اور راہ حق تم پر واضح کردیں ۔ بستی والے کہنے لگے کہ ہم تو تم کو منحوس سمجھتے ہیں کہ تم نے خواہ مخواہ ہمارے ہاں آکر گربڑ پیدا کردی اور اگر تم اس سے باز نہ آئے تو ہم تم تینوں کو مار ڈالے گئے یا سخت قسم کے عذاب میں مبتلا کردیں گے انہوں نے جواب دیا کہ اللہ رب العزت کی نافرمانی کرکے نحوست تو تم خود اپنے اوپر لا چکے ہو اس سے زیادہ نحوست اور کیا ہو سکتی ہے کہ تم نصیحت اور خیر خواہی تک کو قبول نہیں کرتے بلکہ اور زیادہ حد سے گزر جاتے ہو ؟ قوم کے لوگ ان کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھانے ہی والے تھے کہ بستی کے آخری کنارے پر ایک (4) ” نیک مرد “ رہتا تھا اس نے جب سنا کہ میری بستی والے اللہ کے رسولوں کو جھٹلا رہے ہیں اور طرح طرح کی دھمکیاں دے رہے ہیں تو عجلت کے ساتھ وہاں آپہنچا جس جگہ یہ گفتگو ہو رہی تھی اور آتے ہی اس نے جلدی سے قوم کو مخاطب کرکے کہا کہ اے میری قوم ! کے لوگو ! اللہ کے ان رسولوں کی پیروی کرو دیکھو یہ لوگ آپ سے کوئی اجرومزدوری تو طلب نہیں کرتے اور صرف رضائے الہی کے لئے تم کو دعوت دے رہے ہیں وہ اس طرح کی باتیں کرتے کرتے جذبہ اسلام سے سرشار ہوگیا اور کہنے لگا کہ مجھے بتاؤ آخر میں کیوں نہ اس ایک خدا کی پرستش کروں جس نے مجھ کو نیست سے ہست کیا اور مرنے کے بعد میں اور تم اس کی جانب لوٹ جانے والے ہیں تم جو ان برگزیدہ انسانوں کی تکذیب کر رہے تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا مجھے اللہ رب العزت کے سوا معبودان باطل کو اپنا الہ مان لینا چاہئے حالانکہ وہ ذات واحد جو بہت ہی مہربان اور نرم مزاج ہے اگر مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو ان میں سے ایک بھی نہیں ہے جو میری سفارش کر کے اس کے نقصان سے مجھ کو بچا سکے اگر تم میں کو اس راستے پر لانا چاہتے ہو تو کان کھول کر سن لو کہ میں تمہاری بات نہیں مان سکتا تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم ان انسانوں کی بات مانو بلاشبہ یہ اللہ کے رسول ہیں اور ایک بار پھر یہ تم پر واضح کردیتا ہوں کہ میں تو اس ذات الہ پر ایمان لایا ہوں جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے قوم کے لوگوں نے اس کی بات سنی تو غیظ وغضب میں آگئی اور سب سے پہلے انہوں نے اس اللہ کے بندے پر ہاتھ صاف کیا اور اس کو شہید کردیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو یہاں تک بیان کر کے ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس کو جرات حق کی جزا میں جنت عطا کی اور جب اس نے آخری ٹھکانا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو وجد آفریں انداز میں کہنے لگا کہ کاش میری قوم کے لوگ جان سکتے کہ میرے پروردگار نے مجھ کو معاف فرماتے ہوئے جنت میں کیا کیا انعامات اور نعت کے غیر مترقبہ سے مجھے نوازا ہے اور میرا کیا اعزاز واکرام کیا ہے ‘ ادھر قوم نے اس کو ٹھکانے لگا دیا اور غالبا اسی طرح ان تین نبیوں کو بھی انہوں نے اس کے بعد قتل کردیا اور دوسری طرف اس بدکردار قوم کو ہلاک کردینے کی اطلاع دے دی کہ ہم نے ان کو ہلاک کرنے کے لئے آسمان سے کسی لشکر کو نہیں اتارا بلکہ اس زمین سے پیدا ہونے والی ایک ہولناک آواز نے ان کا قصہ بھی تمام کردیا ۔ بلاشبہ ہمارے لئے جن کو یہ قصہ سنایا گیا ہے بیشمار نشانیاں اس میں موجود تھیں بشرطیکہ ہم غور وفکر کرتے ‘ تفصیل تو اس جگہ بیان نہیں کی جاسکتی چند باتوں کی طرف اشارہ دیا جاسکتا ہے ۔ 1۔ ہدایت وضلالت کے معاملہ میں ہمیشہ سے اہل باطل کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ اللہ کے رسول انسان نہیں ہوتے بلکہ کسی مافوق الفطرت ہستی کو رسول بنایا جاتا ہے ۔ قوم نوح سے قوم محمد رسول اللہ ﷺ تک جن جن نبیوں اور رسولوں کا ذکر کیا گیا سب کی قوموں نے سب سے پہلے جو سوال کیا وہ یہی تھا کہ ہم نہیں جانتے کہ تم اللہ کے رسول ہو کیونکہ کسی بشر کا رسول ہونا محال ہے اور یہی بات ان رسولوں کو کہی گئی جو اس بستی کی طرف بھیجے گئے تھے ۔ 2۔ جہاں اور جس جگہ بھی شر و فساد اور فتنہ وگمراہی کے جراثیم بہ کثرت پائے جاتے ہیں وہاں خیر وسعادت کی بھی کوئی کرن ضرور موجود ہوتی ہے جو کلمہ حق کی تائید میں جان کی بازی لگا دیتی ہے اس واقعہ سے بھی یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے ۔ 3۔ حق و باطل کے معرکہ میں حق کی حقانیت اور باطل کی بطاعت کا جب کھلا مظاہرہ ہوتا ہے تو باطل ہمیشہ مشتعل ہوجاتا ہے اور حق کی روشن سے خیرہ ہو کر دلائل کی جگہ جنگ وجدل پر آمادہ ہوجاتا ہے مگر حق کے پرستار اس کی مطلق پروا نہیں کرتے بلکہ وفور جوش اور والہانہ شوق کے ساتھ حق پر جان قربان کردیتے ہیں اور اس قربانی کو وہ بہت آسان سمجھتے ہیں یہاں بھی یہ بات اظہر من الشمس دکھائی دیتی ہے ۔ 4۔ دنیوی زندگی کے ساتھ جتنا دنیا پرست کو لگاؤ ہوتا ہے اتنا خدا پرست کو نہیں ہوتا اس لئے دنیا پرست سب کچھ لٹا سکتا ہے بشرطیکہ اس کی زندگی محفوظ رہے لیکن خدا پرست انسان اپنے دین اور آخرت کی خاطر ایک جان لٹا سکتا ہے بشرطیکہ اس کی زندگی محفوظ رہے لیکن خدا پرست انسان اپنے دین اور آخرت کی خاطر ایک جان کیا سو جانیں ہوں تو وہ بھی قربان کرسکتا ہے اور پھر اس سودے کو وہ کبھی مہنگا تصور نہیں کرتا ۔ 5۔ قصص انبیاء ہوں یا عام قصہ قرآن کریم بیان کرے اس میں قصہ سننے والوں کے لئے نصائح ہی قصہ کا ماحصل ہوتی ہیں قرآن کریم کسی بھی قصہ کے تاریخی پہلو کو کم ہی بیان کرتا ہے بلکہ وہ سبق آموز باتوں پر زیادہ توجہ مبذول کراتا ہے لیکن ہمارے مفسرین تاریخی باتوں کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں اور زیادہ تحقیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجہ اور مآل کی طرف بہت کم توجہ دلاتے ہیں یہی بات اس جگہ بیان کی گئی ہے ۔ غیر ضروری قصص جن کی طرف قرآن نے توجہ نہ کی مفسرین نے انہی پر توجہ ڈالی : 1۔ زیر نظر قصہ اصحاب القریہ میں قرآن کریم نے کسی زمانہ کا تعین نہیں فرمایا کہ یہ کس دور یا کس قوم کا واقعہ ہے اور مفسرین نے اپنی تحقیق کا یہی اصل موضوع قرار دیا ہے اور اس واقعہ کا زمانہ تلاش کرنے میں سرتوڑ کوشش کی ہے لیکن اس کے باوجود کسی متفق قول پر اکٹھے نہیں ہوئے ۔ 2۔ قرآن کریم نے اس بستی کا نام نہیں لیا اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں اس کا نام لیا گیا ہے تاہم مفسرین نے اس کا نام انطاکیہ بتایا ہے اگرچہ اس کے خلاف بھی کہا گیا ہے پھر تجزیہ نگاروں نے اس کا تجزیہ کرنا شروع کردیا اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ انطاکیہ تو کسی صورت بھی نہیں ہو سکتا اور اس پر سب سے زیادہ اعتراض علامہ ابن کثیر (رح) کو ہے اور انہوں نے اس کی وضاحت میں کافی بحث کی ہے اور اس کو اسرائیلیات سے قرار دیا گیا ہے ۔ 3۔ قرآن کریم میں بیان کیا ہے کہ پہلے دو انبیاء کو بھیجا گیا جب ان کو جھٹلا دیا گیا تو اللہ نے تیسرا نبی بھیج کر ان کو ایک جماعت بنادیا ۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ لوگ نبی نہیں تھے دراصل یہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری تھے جن کو خود عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھیجا تھا پھر ان کی کرامات کا ذکر کرتے ہوئے مظہری نے بحوالہ بغوی اور وہب بن منبہ بیان کیا ہے کہ انہوں نے کئی ایک مردوں کو زندہ کیا ‘ اندھوں کو آنکھیں دیں اور اس سلسلہ میں بہت عجیب و غریب واقعات درج کیے گئے ہیں جو کسی دیوپری کی کہانی سے کم نہیں ہیں ۔ 4۔ وہ جو ایک نیک مرد تھا اس کے متعلق وہب بن منبہ کی روایت ہے کہ یہ شخص جذامی تھا اور ان کا مکان شہر کے سب سے آخری دروازہ پر تھا اور اپنے مفروضہ معبودوں سے دعائیں کرتا تھا کہ مجھے تندرست کردیں اور اس طرح دعائیں کرتے کرتے اس کو ستر سال گزر گئے ، یہ رسول اللہ شہر انطاکیہ میں اتفاقا اسی دروازہ سے داخل ہوئے تو اس شخص سے پہلے پہل ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس کو بت پرستی سے باز آنے اور ایک اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دی اس نے کہا کہ آپ کے پاس آپ کے دعوی کی کوئی دلیل وعلامت صحت بھی ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! ہم اپنے رب سے دعا کریں گے وہ تمہیں تندرست کر دے گا اس نے کہا کیا عجیب بات کہتے ہو میں ستر سال سے اپنے معبودوں سے دعا مانگتا ہوں کچھ فائدہ نہیں ہوتا تمہارا رب کیسے ایک دن میں میری حالت بدل دے گا انہوں نے کہا کہ ہاں ! ہمارا رب ہرچیز پر قادر ہے اور جن کو تم نے خدا بنا رکھا ہے ان کی کوئی حقیقت نہیں یہ کسی کو نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتے یہ سن کر یہ شخص ایمان لے آیا اور ان بزرگوں نے اس کے لئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا تندرست کردیا کہ بیماری کا کوئی اثر ہی باقی نہ رہا ۔ اب تو اس کا ایمان پختہ ہوگیا اور اس نے عہد کیا کہ دن بھر میں جو کچھ کمائے گا اس کا آدھا اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا جب ان رسولوں پر شہر کے لوگوں نے یلغار کی اور اس کی خبر اس کو ملی تو یہ دوڑ کر آیا اور اپنی قوم کو سمجھایا اور اپنے ایمان کا اعلان کردیا تو پوری قوم اس کی دشمن ہوگئی اور سب مل کر اس پر ٹوٹ پڑے ۔ ذرا غور کیجئے کہ وہ سبق جو اس قصہ سے امت محمدیہ کو سکھایا گیا تھا نہایت خوبصورتی سے کس طرح اس کا بیڑا غرق کردیا گیا اور ایمان باللہ جس کی اسلام میں اصل قدر و قیمت ہے کا کس طرح ستیاناس کردیا کہ اب اسلام کو پرکھنے کے وہی شعبدہ بازی دکھائیں جو دنیا میں راہب ‘ پنڈت ‘ پادری اور ذلیل و حقیر قسم کے پیرومرشد دکھایا کرتے ہیں تب جا کر اسلام کی حقانیت کا پتہ چلے اس طرح اس تفسیر کو صحیح تفسیر کے طور پر لوگوں میں متعارف کرایا گیا اور حقیقت کو اس طرح مستور کردیا کہ اس کا کہیں اتا پتا ہی نہ رہا ۔ اللہ تعالیٰ ہم کو سمجھ کی توفیق دے اور عقل وفکر سے کام لینے کی سمجھ عطا فرمائے اور ہم اس قرآن کریم کو دیو مالا کی کہانیاں نہ بنائیں بلکہ اس کو اللہ کی کتاب جان کر اس کی وہ قدرت و قیمت پہچانیں جو اللہ کی کتاب کی ہونی چاہئے اور ان اسرائیلیات کو بیان کرنے باز آجائیں تاکہ قوم مسلم کی صحیح راہنمائی کرسکیں ۔ اللہم ارنا الحق حقا۔
Top