Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 166
لٰكِنِ اللّٰهُ یَشْهَدُ بِمَاۤ اَنْزَلَ اِلَیْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ١ۚ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ یَشْهَدُوْنَ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ
لٰكِنِ : لیکن اللّٰهُ : اللہ يَشْهَدُ : گواہی دیتا ہے بِمَآ : اس پر جو اَنْزَلَ : اس نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف اَنْزَلَهٗ : وہ نازل ہوا بِعِلْمِهٖ : اپنے علم کے ساتھ وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے يَشْهَدُوْنَ : گواہی دیتے ہیں وَكَفٰي : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
اللہ نے جو کچھ تم پر نازل کیا ہے وہ اسے نازل کر کے (تمہاری سچائی کی) گواہی دیتا ہے کہ اس نے اپنے علم کے ساتھ نازل کیا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور اللہ کی گواہی بس کرتی ہے
اگر یہ لوگ سچائی کے منکر ہیں تو اس سچائی کے گواہ اللہ اور اس کے فرشتے ہوں گے۔ 257: اگر یہ لوگ آپ ﷺ کی سچائی سے منکر ہیں تو ہوا کریں۔ عنقریب یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ اس قرآن کی دعوت تمام گردو پیش کے ممالک پر چھا گئی ہے اور یہ خود اس کے آگے سرنگوں ہوں گے اس وقت انہیں پتہ چل جائے گا کہ جو کچھ آج ان سے کہا جا رہا ہے اور یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں وہ سر اسر حق تھا بعض لوگوں نے اس مفہوم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ محض کسی دعوت کسی دعوت کا غالب آجانا اور بڑے بڑے علاقے فتح کرلینا تو اس کے حق ہونے کی دلیل نہیں ہے باطل دعوتیں بھی چھا جاتی ہے اور ان کے پیرو بھی ملک پر ملک فتح کرتے چلے ہیں یہ ایک بالکل سطحی اعتراض ہے جو پورے معاملہ پر غور کئے بغیر کردیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں جو حیرت انگیز فتوحات اسلام کو نصیب ہوئیں وہ محض اس معنی میں اللہ کی نشانیاں نہ تھیں کہ اہل ایمان ملک پر ملک فتح کرتے چلے گئے بلکہ اس معنی میں تھیں کہ یہ فتح مملک دنیا کی دوسری فتوحات کی طرح نہیں تھیں جو ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک قوم کو دوسروں کی جان و مال کی مالک بنادیتی ہے اور خدا کی زمین ظلم سے بھر جاتی ہے۔ اس کے برعکس یہ فتح اپنے جلو میں ایک عظیم الشان مذہبی ‘ اخلاقی ‘ ذہنی ‘ فکری ‘ تہذیبی ‘ سیاسی اور تمدنی و معاشی انقلاب لے کر آئی تھی جس کے اثرات جہاں جہاں بھی پہنچے انسان کے بہترین جوہر کھلتے چلے گئے اور بد ترین اوصاف دبتے چلے گئے۔ دنیا جب فضائل کو صرف تارک الدنیا درویشوں اور گوشہ میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے والوں کے اندر ہی دیکھنے کی امید رکھتی تھی اور کبھی یہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ کاروبار دنیا چلانے والوں میں وہ پائے جاسکتے ہیں اس انقلاب نے وہ فضائل اخلاق فرامانروائوں کی سیاست میں ‘ انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والوں کی عدالت میں ‘ فوجوں کی قیادت کرنے والے سپہ سالاروں کی جنگ اور فتوحات میں ‘ ٹیکس وصول کرنے والوں کی تحصیل داری میں اور بڑے بڑے کاروبار چلانے والوں کی تجارت میں جلوہ گر کر کے دکھا دیئے۔ اس نے اپنے پیدا کردو معاشرے میں عام انسانوں کو اخلاق و کردار اور طہارت ونظافت کے اعتبار سے اتنا اونچا اٹھایا کہ دوسرے معاشروں کے چیدہ لوگ بھی ان کی سطح سے فرد ترنظرآنے لگے۔ اس نے اوہام و خرافات کے چکر سے نکال کر انسان کو علمی تحققید اور معقول طرز فکرو عمل کی صاف شاہراہ پر ڈال دیا۔ اس نے اجتماعی زندگی کے ان سارے امراض کا علاج کیا جن کے علاج کی فکر تک سے دوسرے نظام خالی تھے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ اس شہادت کا ذکر اس طرح کیا گیا فرمایا : ” عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہرچیز کا شاہد ہے ؟ “ (حم السجدہ 41:53) دوسری جگہ فرمایا : ” اے پیغمبر اسلام ! کہہ کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہی کے لئے کافی ہے وہ آسمانوں اور زمین میں سب کچھ جانتا ہے۔ جو لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ سے کفر کرتے ہیں وہی خسارے میں ہیں۔ “ (العنکبوت 29:52) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور اے پیغمبر اسلام ! ہم نے ان لوگوں سے جن جن باتوں کا وعدہ کیا ہے ان میں سے بعض باتیں تجھے دکھادیں گے یا تیرا وقت پورا کردیں گے لیکن بہر حال انہیں ہماری طرف لوٹنا ہے اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس پر شاہد ہے اور یاد رکھو کہ ہر امت کے لئے ایک رسول ہے پھر جب کسی امت میں اس کا رسول ظاہر ہوگیا تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ ناانصافی ہو۔ “ (یونس 10:47) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کی پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔ “ (الفتح 48:28) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” یہ لوگ چاہتے ہیں اللہ کی روشنی پھونکوں سے بجھا دیں حالانکہ اللہ یہ روشنی پوری کئے بغیر رہنے والا نہیں ‘ اگرچہ کافروں کو پسند نہ آئے۔ “ (التوبہ 9:32) اللہ کے فرشتوں کی گواہی اللہ تعالیٰ کی وہ طاقتیں ہیں جو مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے ہمیشہ مددگار ہوتی ہیں : اور اللہ کے بندوں کی ہمتیں بڑھا کر نہتوں کو ہتھوں والوں کے مقابلہ میں لے آتی ہیں اور کامیاب کراکر دم لیتی ہیں۔
Top