Tafseer-e-Usmani - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر10 تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ11
10  یہ حکم روزہ کے متعلق ہے جو ارکان اسلام میں داخل ہے اور نفس کے بندوں ہوا پرستوں کو نہایت ہی شاق ہوتا ہے اس لئے تاکید اور اہتمام کے الفاظ سے بیان کیا گیا اور یہ حکم حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانہ سے اب تک برابر جاری رہا ہے گو تعیین ایام میں اختلاف ہو اور اصول مذکورہ سابقہ میں جو صبر کا حکم تھا روزہ اس کا ایک بڑا رکن ہے حدیث میں روزہ کو نصف صبر فرمایا ہے۔ 11  یعنی روزہ سے نفس کو اس کی مرغوبات سے روکنے کی عادت پڑیگی تو پھر اس کو ان مرغوبات سے جو شرعا حرام ہیں روک سکو گے اور روزہ سے نفس کی قوت و شہوت میں ضعف بھی آئے گا تو اب تم متقی ہوجاؤ گے بڑی حکمت روزہ میں یہی ہے کہ نفس سرکش کی اصلاح ہو اور شریعت کے احکام جو نفس کو بھاری معلوم ہوتے ہیں ان کا کرنا سہل ہوجائے اور متقی بن جاؤ، جاننا چاہیے کہ یہود و نصاریٰ پر بھی رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے مگر انہوں نے اپنی خواہشات کے موافق ان میں اپنی رائے سے تغیر و تبدل کیا تو لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون میں ان پر تعریض ہے معنی یہ ہونگے کہ اے مسلمانو تم نافرمانی سے بچو یعنی مثل یہود اور نصاریٰ کے اس حکم میں خلل نہ ڈالو۔
Top