Ruh-ul-Quran - Hud : 104
وَ مَا نُؤَخِّرُهٗۤ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍؕ
وَ : اور مَا نُؤَخِّرُهٗٓ : ہم نہیں ہٹاتے پیچھے اِلَّا : مگر لِاَجَلٍ : ایک مدت کے لیے مَّعْدُوْدٍ : گنی ہوئی (مقررہ)
اور وہ ایسا دن ہوگا جب سب کو حاضر کیا جائے گا۔ ہم اس کو ٹال رہے ہیں بس ایک گنتی کی مدت کے لیے۔
وَمَا نُؤَخِّرُہٗٓ اِلاَّ لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ ۔ یَوْمَ یَاْتِ لاَ تَکَلَّمُ نَفْسٌ اِلاَّ بِاِذْنِہ ج فَمِنْہُمْ شَقِیٌّ وَّ سَعِیْدٌ۔ (سورۃ ہود : 104، 105) (ہم اس کو ٹال رہے ہیں بس ایک گنتی کی مدت کے لیے۔ جب وہ دن آئے گا کوئی جان اس کے اذن کے بغیر کلام نہ کرسکے گی، پس ان میں کچھ بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت۔ ) قیامت کو دور مت سمجھو انسان کی کمزوری یہ ہے کہ وہ قیامت کو بہت دور سمجھتا ہے۔ اگر اس کے سامنے قیامت کا ذکر بھی کیا جائے تو وہ اسے چنداں اہمیت نہیں دیتا۔ سمجھتا ہے کہ ابھی معاملہ بہت دور کا ہے، تو جس چیز کا آنا ابھی بہت دور ہے اس کے لیے ابھی سے اپنا عیش مکدر کیوں کیا جائے۔ پروردگار فرما رہا ہے کہ قیامت کو کوئی ایسا دور مت سمجھو، بس ایک گنی چنی سے مدت ہے جس کے بعد قیامت کا آنا یقینی ہے، پھر یہ ایسی مدت بھی نہیں جس میں تاخیر ہوسکے، اس کا وقت مقرر ہے اور اگر اس سلسلے میں آنحضرت ﷺ کے ارشاد کو پیش نظر رکھا جائے تو پھر تو معاملہ ابھی سے فکرمندی کا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ جو شخص مرگیا اس کی قیامت آگئی۔ کیونکہ موت کے ساتھ ہی عمل کا موقع ختم ہوجاتا ہے برزخی زندگی انتظار کا وقت ہے، صورِقیامت کے ساتھ ہی برزخ کا تصور ذہن سے نکل جائے گا۔ لوگ قبروں سے اس طرح اٹھیں گے جیسے ابھی سوئے تھے۔ بعض اٹھنے والے کہیں گے مَنْ بَعْثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا کس نے ہمیں ہماری خوابگاہ سے اٹھایا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو قیامت دور کہاں ہے۔ قیامت کو دور وہی کہہ سکتا ہے جو موت کو دور سمجھتا ہو۔ اور موت کو دور سمجھنا سب سے بڑی خودفریبی ہے۔ موت جس طرح بوڑھوں کو آتی ہے جوانوں اور بچوں کو بھی آتی ہے۔ کسی عمر کے ساتھ مخصوص نہیں، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ چند خوش قسمت لوگ ہوں گے جو اس خودفریبی سے بچ سکے ہوں گے ورنہ ہر شخص موت کو بڑھاپے تک بھی اپنے آپ سے دور سمجھتا ہے حالانکہ زندگی میں آنے والی تبدیلیاں اور مختلف عوارض موت کی یاد دلانے کے لیے ہی آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کسی بزرگ نے حضرت عزرائیل (علیہ السلام) کو خواب میں دیکھا تو ان سے شکایت کی کہ ہر آنے والا ہمیشہ اپنے آنے کی اطلاع دیتا ہے لیکن ایک آپ ہیں کہ اچانک آ دھمکتے ہیں۔ انھوں نے کہا : کہ جتنی اطلاعات میں بھیجتا ہوں، کوئی بھی نہیں بھیجتا۔ جب بخار چڑھتا ہے تو یہ میرا پیغام ہوتا ہے، کوئی اور بیماری آتی ہے تو میرا سندیسہ بن کے آتی ہے، جب داڑھی میں پہلا سفید بال آتا ہے تو وہ میری طرف سے وارننگ ہوتی ہے، میں تو کبھی بلا اطلاع نہیں آتا۔ اس سے اندازہ فرمائیں کہ موت بار بار ہمیں ہچوکے دیتی ہے کہ میں زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہوں۔ اس لیے مجھے کبھی اپنے سے دور نہ سمجھو۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ہم اسی حقیقت کو خودفریبی کی نظر کردیتے ہیں۔ قیامت کی ہیبت دوسری آیت کریمہ میں فرمایا کہ تم نہ جانے قیامت کو کیا سمجھتے ہو، اس دن کی ہیبت کا تو عالم یہ ہوگا کہ کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی اس دن زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ بجز اس کے کہ اللہ کسی کو اذن گویائی دے۔ قیامت میں سب سے پہلے جو مسئلہ تمام امتوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوگا، وہ حساب کتاب کا انتظار ہوگا۔ ہر شخص اپنے پسینے میں ڈوبا ہوا گا اور سورج کی گرمی جلائے دے رہی ہوگی۔ لوگ اپنی ناقابل برداشت تکلیف سے مجبور ہو کر اللہ کے رسولوں کے پاس جائیں گے کہ آپ بارگاہِ ایزدی میں التجا کریں کہ حساب شروع ہو تاکہ ہمیں اپنے انجام کی خبر ہو لیکن حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک کوئی بھی اس کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ سب نفسی نفسی پکاریں گے۔ آخر میں لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گے تو حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ میں اس کے لیے اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ اب میں نہیں جانتا کہ اس وقت کن کلمات کے ساتھ میں اللہ کی تعریف کروں گا۔ اسی وقت وہ کلمات میرے دل میں ڈالے جائیں گے۔ میں بار بار اپنے اللہ سے التجا کروں گا اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ میں کتنی دیر سجدے میں رہوں گا۔ آخر آواز آئے گی، محمد ﷺ اپنا سر اٹھا لو، مانگو، دیا جائے گا۔ اجازت ملنے پر آپ ﷺ التجا کریں گے، الٰہی تیری مخلوق بہت تکلیف میں ہے، ان کا حساب کتاب شروع کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ چناچہ ادھر سے اجازت ہوگی اور حساب شروع ہوجائے گا۔ یہ وہ پہلی شفاعت ہے جو حضور ﷺ فرمائیں گے اور اسے شفاعت کبریٰ کہا گیا ہے۔ اسی سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ دن کس قدر ہیبت ناک ہوگا۔ حساب کتاب کے نتیجے میں انسانوں کی سب تقسیمختم ہوجائے گی سوائے دو تقسیموں کے۔ کچھ لوگ وہ ہوں گے جنھیں یہاں سعید کہا گیا ہے، جس کا معنی ہے خوش بخت۔ اور کچھ لوگ وہ ہوں گے جنھیں شقی فرمایا گیا ہے، جس کا معنی ہے بدبخت۔ جن کے پاس ایمان و عمل کا سرمایہ ہوگا، وہ سعید اور خوش بخت ہوں گے۔ اور جو ایمان و عمل سے تہی دامن ہوں گے، وہ بدبخت اور شقی ہوں گے۔
Top