Aasan Quran - An-Naba : 22
اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا اللّٰهُ : اللہ يٰعِيْسٰٓى : اے عیسیٰ اِنِّىْ : میں مُتَوَفِّيْكَ : قبض کرلوں گا تجھے وَرَافِعُكَ : اور اٹھا لوں گا تجھے اِلَيَّ : اپنی طرف وَمُطَهِّرُكَ : اور پاک کردوں گا تجھے مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَجَاعِلُ : اور رکھوں گا الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اتَّبَعُوْكَ : تیری پیروی کی فَوْقَ : اوپر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْٓا : کفر کیا اِلٰى : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن ثُمَّ : پھر اِلَيَّ : میری طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹ کر آنا ہے فَاَحْكُمُ : پھر میں فیصلہ کروں گا بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان فِيْمَا : جس میں كُنْتُمْ : تم تھے فِيْهِ : میں تَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے تھے
(اس کی تدبیر اس وقت سامنے آئی) جب اللہ نے کہا تھا کہ : اے عیسیٰ میں تمہیں صحیح سالم واپس لے لوں گا، (23) اور تمہیں اپنی طرف اٹھالوں گا، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان (کی ایذا) سے تمہیں پاک کردوں گا۔ اور جن لوگوں نے تمہاری اتباع کی ہے، ان کو قیامت کے دن تک ان لوگوں پر غالب رکھوں گا جنہوں نے تمہارا انکار کیا ہے۔ (24) پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے، اس وقت میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔
23: حضرت عیسیٰ ؑ کے مخالفین نے انہیں سولی پر چڑھانے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو آسمان پر اٹھا لیا اور جو لوگ آپ کو گرفتار کرنے والے تھے ان میں سے ایک شخص کو حضرت عیسیٰ ؑ کا ہم شکل بنادیا، اور مخالفین نے حضرت عیسیٰ ؑ کے دھوکے میں اسے سولی پر چڑھا دیا آیت کا جو ترجمہ یہاں کیا گیا ہے وہ عربی لفظ ”توفی“ کے لغوی معنی پر مبنی ہے، اور مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے یہاں یہی معنی مراد لیے ہیں۔ اس لفظ کی ایک اور تشریح بھی ممکن ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی مروی ہے۔ اس کے لیے ملاحظہ ہو معارف القرآن ص :74 ج :2۔ 24: یعنی حضرت عیسیٰ ؑ کو ماننے والے (خواہ انہیں صحیح طور پر مانتے ہوں جیسے مسلمان، یا غلو کے ساتھ مانتے ہوں، جیسے عیسائی ان کے مخالفین پر ہمیشہ غالب رہیں گے۔ چنانچہ تاریخ میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے، البتہ صدیوں کی تاریخ میں اگر کچھ مختصر عرصے کے لیے جزوی طور پر کہیں ان کے مخالفین کا غلبہ ہوگیا ہو تو وہ اس کے منافی نہیں ہے۔
Top