Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 55
اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
اِذْ
: جب
قَالَ
: کہا
اللّٰهُ
: اللہ
يٰعِيْسٰٓى
: اے عیسیٰ
اِنِّىْ
: میں
مُتَوَفِّيْكَ
: قبض کرلوں گا تجھے
وَرَافِعُكَ
: اور اٹھا لوں گا تجھے
اِلَيَّ
: اپنی طرف
وَمُطَهِّرُكَ
: اور پاک کردوں گا تجھے
مِنَ
: سے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
كَفَرُوْا
: انہوں نے کفر کیا
وَجَاعِلُ
: اور رکھوں گا
الَّذِيْنَ
: وہ جنہوں نے
اتَّبَعُوْكَ
: تیری پیروی کی
فَوْقَ
: اوپر
الَّذِيْنَ
: جنہوں نے
كَفَرُوْٓا
: کفر کیا
اِلٰى
: تک
يَوْمِ الْقِيٰمَةِ
: قیامت کا دن
ثُمَّ
: پھر
اِلَيَّ
: میری طرف
مَرْجِعُكُمْ
: تمہیں لوٹ کر آنا ہے
فَاَحْكُمُ
: پھر میں فیصلہ کروں گا
بَيْنَكُمْ
: تمہارے درمیان
فِيْمَا
: جس میں
كُنْتُمْ
: تم تھے
فِيْهِ
: میں
تَخْتَلِفُوْنَ
: اختلاف کرتے تھے
اس وقت کو (یاد کرو) کہ اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ ! میں تمہاری عمر پوری کروں گا اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لوں گا اور تمہیں کافروں (کے بہتان) سے پاک کر دوں گا اور تمہارے ماننے والوں کو تمہارے منکروں پر قیامت تک فوقیت دوں گا۔ پھر میرے ہی پاس تم کو پھر کر آنا ہے سو جس بات میں تم اختلاف کر رہے تھے۔
ترکیب : اذ کا یا وہی عامل ہے اعنی اذکر یا وقع ذلک۔ متوفیک اور رافعک اور جاعل الخ سب خبر ہیں انی کی فاما الذین کفروا مبتداء فاعذبہم خبر ذلک مبتداء نتلوہ خبر۔ تفسیر : یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کا تتمہ ہے۔ یہود کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے گرچہ وعظ و نصیحت کی وجہ سے عداوت تھی مگر جبکہ سبت وغیرہ احکام میں تغیر کیا تو یہود کو الزام لگانے کا ذریعہ ہاتھ آگیا۔ ملک شام میں اس وقت یہود کی سلطنت نہ تھی بلکہ رومیوں کی سلطنت تھی اور قیصر روم کی طرف سے وہاں ایک حاکم رہتا تھا جس کو ہیرو دیس کہا کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حواریوں کو ساتھ لئے ملک شام کے شہروں میں معجزے دکھاتے اور وعظ فرماتے پھرتے تھے۔ ہر شہر میں سینکڑوں مرد و عورت حضرت کے دین میں آتے تھے اس پر اور بھی یہود کو حسد اور شک ہوتا تھا۔ جب یہود کی دشمنی بڑھ گئی اور وہ حضرت کے قتل کا موقع تلاش کرنے لگے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دن کو شہر یروشلم میں آکر ہیکل یعنی بیت المقدس میں وعظ فرمایا کرتے تھے۔ شام کو زیتون کی پہاڑی میں کسی درخت کے تلے بیٹھ کر دعا و عبادتِ الٰہی میں رات تمام کرتے تھے۔ اس عرصہ میں یہود کی عید فطیر جس کو عید فسح کہتے ہیں ٗ قریب آئی اور سردار کاہن اور فقیہ اس فکر میں تھے کہ ان کو مار ڈالیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں میں سے ایک شخص یہودا نامی نے جا کر ان سے کچھ روپیہ لے کر خبر دی پھر تو یہودیوں کی ایک جماعت ہتھیار باندھ کر اس پہاڑی پر پہنچی۔ ادھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خدا سے گریہ وزاری کرکے یہ کہہ رہے تھے کہ اے خداوند اگر تیری مرضی ہو تو یہ پیالہ مجھ سے دور کر دے اور اپنے حواریوں کو آمادہ کر رکھا تھا۔ ان کے پاس صرف دو تلواریں تھیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ حال معلوم ہوگیا تھا کہ ان سے کچھ مقابلہ نہ ہوگا۔ الغرض شباشب یہود حضرت مسیح (علیہ السلام) کو گرفتار کرکے ان کے منہ پر طمانچے مارتے اور ٹھٹھا کرتے ہوئے شہر میں لائے۔ صبح کو تمام یہود جمع ہوئے اور ان سے پوچھا اگر تو وہ مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے (جس طرح اہل اسلام امام مہدی کے منتظر ہیں۔ اسی طرح یہود میں مسیح کا انتظار تھا بلکہ اب بھی ہے کہ وہ ان کو پھر بادشاہت دے گا) آپ نے فرمایا اگر میں کہوں بھی تو تم کب یقین کرو گے۔ آخر الامر سب لوگ ان کو پلاطوس کے حاکم کے پاس لے گئے کہ یہ لوگوں کو قیصر کے محصول دینے سے منع کرتا اور اپنے آپ کو مسیح بادشاہ کہتا ہے۔ حضرت نے انکار کیا ٗ اس نے کہا میرے نزدیک اس کا کوئی جرم مستوجب قتل نہیں۔ پلاطوس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اسی حالت میں ہیرودیس کے پاس بھیج دیا۔ اس نے پھر اسی کے پاس بھیجا اور چھوڑنا چاہا تو یہود نے غل مچا دیا کہ ایسا نہ کرنا۔ تب اس نے کہا کہ تمہارے کہنے سے میں اس کو سولی دیتا ہوں مگر اس کا گناہ تم پر اور تمہاری اولاد پر۔ یہود نے کہا منظور۔ حضرت کے حواری سب بھاگ گئے۔ اس وقت حضرت پر ایک عجیب حالت طاری تھی جس میں خدا نے حضرت مسیح (علیہ السلام) سے خطاب کرکے یہ جملہ فرمائے جو ان آیات میں مذکور ہیں کہ اے عیسیٰ ! کچھ غم نہ کرو۔ میں تم کو آسمان کی طرف اٹھا لیتا ہوں اور جو کچھ یہ لوگ تم پر بہتان لگاتے ہیں کہ تو نے خدائی دعویٰ کیا اور خدا کا بیٹا بنا (انجیل لوقا باب 22 درس 69) اس سے میں نبی اخیر کی معرفت تم کو پاک کر دوں گا۔ جیسا کہ انجیل برنباس سے ثابت ہے اور اب جو مخالفین کی جماعت تم کو غالب دکھائی دیتی ہے۔ میں ان کو قیامت تک تمہارے ماننے والوں کے ماتحت کر دوں گا۔ یہ دنیا کی سزا ہے اور آخر تو ہر شخص ہماری طرف رجوع کرتا ہے۔ ہم نیکوں کو پورا بدلہ نیک دیں گے اور بدوں کو سخت عذاب دیں گے۔ آخر کار خدا نے ایک شخص مفسد شمعون اقراینی کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی صورت میں کردیا۔ لوگوں نے اسی کو عیسیٰ سمجھ کر اس پر صلیب دھر کر شہر کے باہر لے گئے اور سولی دی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ملائکہ آسمان پر اٹھا کرلے گئے۔ عیسائی کہتے ہیں بلکہ خود حضرت مسیح (علیہ السلام) کو صلیب پر کھینچا اور انہوں نے چیخ چیخ کر جان دی اور پھر ایک شخص یوسف نامی پلاطوس سے حضرت کی لاش مانگ کرلے گیا اور اس نے قبر میں دفنایا اور اوپر پتھر کی چٹان دھر دی۔ یہ جمعہ کی شام کا واقعہ تھا۔ اتوار کو حضرت مسیح (علیہ السلام) زندہ ہو کر لوگوں کو دکھائی دیے اور آسمان پر چڑھ گئے اور پھر آنے کا وعدہ کر گئے۔ اس واقعہ کے وقت ان کی عمر 33 برس کی تھی۔ احادیث صحیحہ سے بھی قرب قیامت میں عیسیٰ (علیہ السلام) کا آنا ثابت ہوتا ہے۔ بحث مسلولی مسیح پر : اس مسئلہ کی ہم ابھی تحقیق کرتے ہیں کہ حق کس کی جانب ہے اور یہ تحقیق ان چند ابحاث کے ضمن میں آتی ہے۔ (1) اذ قال اللّٰہ یعیسیٰ انی متوفیک الخ توفی کے معنی لغت میں کسی چیز کا پورا کردینا ہے اور چونکہ مردہ اپنی حیات کا پورا حصہ پا لیتا ہے۔ اس لئے اس کو بھی متوفی کہتے ہیں اور انہیں اعتبارات سے اس کے معنی قبض کرنے کے بھی آتے ہیں اور کبھی متوفی بمعنی مستوفی بھی آتا ہے۔ اگر یہاں اس سے مراد موت لی جاوے تو پھر اس آیت میں (وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم۔ (نہ انہوں نے عیسیٰ کو قتل کیا نہ سولی دیا بلکہ ان پر اشتباہ پڑگیا) بظاہر اختلاف سا معلوم ہوتا ہے چناچہ بعض پادریوں نے یہ اعتراض بھی کیا ہے (ہدایت المسلمین صفحہ 355) اس کا جواب بہت سہل ہے (1) یوں کہ یہاں متوفی بمعنی مستوفی ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ میں تیری اجل کو پورا کروں گا کہ تجھ کو ان کے قتل سے بچا کر آسمان پر چڑھا لوں گا ٗ پھر تو اپنے وقت معہود پر مرے گا (بیضاوی) اب دونوں آیتوں میں کچھ بھی اختلاف نہیں۔ (2) یوں کہ اس کے معنی قبض کے ہیں جس سے آیت کے یہ معنی ہوئے کہ میں تجھ کو زمین سے اپنے قبضہ میں لا کر آسمان پر پہنچا دیتا ہوں (بیضاوی) اب بھی کچھ اختلاف باقی نہ رہا (3) وفات سے مراد قوائے بہیمہ اور آثار جسمانیہ سے ہلکا کردینا ہے جو آسمان کی طرف عروج کو مانع ہیں۔ خلاصہ یہ کہ میں تیرے آثار جسمانیہ کو پست کرکے تیری روحانیت کو غلبہ دے کر تجھے آسمان پر چڑھا دیتا ہوں۔ (4) وہب کہتے ہیں کہ تین ساعت وفات رہی ٗ پھر خدا نے ان کو زندہ کرکے آسمان کی طرف اٹھا لیا جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں مگر یہ وفات یہود کی سولی دینے سے واقع نہ ہوئی تھی۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وما قتلوہ ووما صلبوہ بلکہ آثار جسمانیہ کے ہلکا کرنے کے لئے خدا نے وفات دی ہوگی اور یہود نے جس کو قتل کیا اور سولی دی وہ شمعون افراینی یا کوئی شخص ان کا شبیہ تھا جس سے ان کو اشتباہ واقع ہوا (تفسیر کبیر) اس تقدیر پر بھی دونوں آیتوں میں کچھ تعارض باقی نہ رہا۔ خلاصہ یہ کہ آیت وما قتلوہ میں جو نفی ہے تو یہود کے قتل کرنے کی نفی ہے۔ اب رہی یہ بحث کہ آیا دراصل یہود نے مسیح کے ہمشکل کو سولی دی اور مسیح کو نہیں دیا۔ جیسا کہ آیت وما قتلوہ الخ سے پایا جاتا ہے۔ سو اس کی تحقیق یوں ہے کہ گو دوسری صدی بلکہ پہلی صدی ہی سے عیسائیوں بالخصوص پولوس کے مریدوں میں یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ یہود نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دی اور وہ تیسرے روز زندہ ہو کر لوگوں کو دکھائی دیے۔ پھر آسمان پر چڑھ گئے اور اسی قصہ پر ان کا کفارہ جو اصول مذہب ہے مبنی ہے۔ مگر تاریخی واقعات پر بنظر انصاف غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دینے لے چلے تھے اس وقت ان کے حواری اور دیگر مرید لوگ اس خوف سے کہ مبادا ہم نہ پکڑے جاویں سب تِر بھر ہوگئے تھے۔ کوئی بھی ساتھ نہ تھا جیسا کہ لارڈ ولیم میور کی تاریخ کلیسا سے مستفاد ہوتا ہے۔ پھر اب جو حواریوں نے یا اور مریدوں نے سنا ہوگا تو خاص انہیں یہود یا پل اس کے نوکروں سے سنا ہوگا جن کی نسبت خیال ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی ناکامیابی چھپانے کے لئے مشہور کردیا ہو کہ ہم نے عیسیٰ مسیح کو قتل کر ڈالا۔ سولی دیدی۔ اس کے علاوہ ہم کو صحیح طور پر یہ بھی معلوم نہیں کہ ان لوگوں کا اس امر میں کیا بیان تھا ؟ نہ کوئی یہودی تاریخ اس کی خبر دیتی ہے اور نہ کوئی حواری اپنا مشاہدہ بیان کرتا ہے۔ انا جیل اربعہ میں سے لوقا اور مرقس تو پولوس کے شاگرد ہیں جو اس واقعہ میں شریک ہی نہ تھے۔ سو یہ ظاہر ہے کہ وہ سنی سنائی باتیں کہتے ہیں۔ رہے یوحنا اور متی وہ بھی وہاں نہ تھے صرف چند عورتیں دور سے دیکھتی تھیں اور کچھ عجب نہیں کہ یہودیوں کو وہاں شک پڑا ہو کہ یہ فلاں شخص ہیں اور فلاں کہاں ہے ؟ مگر ان کا یہ شبہ اور تردد ہم تک کیونکر منقول ہوسکتا ہے جس میں ان کی سبکی تھی۔ برخلاف اس کے خود عیسائیوں میں سے دو گواہ قوی شہادت دے رہے ہیں۔ اول برنباس حواری کی انجیل ہے جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے صدہا سال پیشتر عیسائیوں میں مشہور و معروف تھی جس کی عبارت یہ ہے۔ تب فرشتوں نے باکرہ سے کہا کیونکر یہودا عیسیٰ کی شکل میں مبدل ہوگیا الخ تب عیسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا ٗ اے بربناس ! میری بات یقین کر کہ ہر ایک گناہ کی خدا سزا دیتا ہے۔ چونکہ میری ماں اور میرے ایماندار شاگرد مجھے زمینی محبت کے اختلاط کے سبب پیار کرتے تھے خدائے صادق انہیں اس محبت پر سزا دینے پر راضی ہوا تاکہ بعد زاں دوزخ کے شعلوں میں عذاب نہ پاویں اور میں گرچہ دنیا میں بےعیب زندگی بسر کرتا رہا ٗ تاہم چونکہ لوگ مجھے خدا اور خدا کا بیٹا کہتے تھے خدا نے عدالت کے دن مجھے شیاطین کے ٹھٹھوں سے محفوظ رکھنے کے لئے چاہا کہ میں اسی دنیا میں یہودا (جس نے گرفتار کروایا تھا) کی موت سے ندامت اٹھائوں اور سب لوگوں کو یقین ہوا تھا کہ حقیقۃً میں سولی دیا گیا۔ پس یہ ملامت محمد ﷺ کے آنے تک رہے گی جو دنیا میں آکر سب کو خدا کی شریعت پر ایمان لانے میں غلطی سے بچائے گا۔ انتہیٰ (جونس) اس عبارت میں صاف اقرار ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سولی نہیں دیے گئے بلکہ اور شخص چناچہ اس غلطی سے عالم کو حضرت محمد ﷺ نے آگاہ کردیا۔ عیسائی اس گواہ پر یہ جرح کرتے ہیں (1) انجیل برنباس ہمارے نزدیک الہامی کتاب نہیں بلکہ ایسی ہے جیسی کہ محمدیوں میں حدیث کی کتابیں (2) یہ عبارت اس میں کسی محمدی نے یا کسی ملحد نے محمدیوں سے لے کر ملا دی ہے (3) مسیح کا مصلوب ہونا الہامی کتابوں میں چشم دید گواہوں کی معرفت قلمبند ہوا۔ پھر اس کے برخلاف کیونکر تسلیم کیا جاوے (4) پوسیفس یہودی مؤرخ جو اسی زمانہ میں ہوا ہے وہ یہی کہہ رہا ہے۔ جواب انجیل برنباس کو الہامی نہ کہنا جو حواری تھا اور بیچارے لوقا کی تاریخ کو الہامی کہنا اگر تقلید قوم نہیں تو اور کیا ہے مانا کہ بمنزلہ کتب حدیث ہے تو پھر کیا ان سے استدلال نہیں کرتے ؟ اگر کسی محمدی نے یہ عبارت اس میں ملا دی تو بڑے تعجب کی بات ہے کہ ایک شخص نے اس کتاب میں ہر کتب خانہ میں جا کر الحاق کردیا ورنہ کوئی اصل نسخہ دکھلاؤ کہ جس میں یہ عبارت نہ ہو اور وہ ملحد بھی کہاں کا کر امتی تھا کہ جس نے آنحضرت ﷺ سے پہلے آپ کا نام لکھ دیا اور پھر روئے زمین کے نسخوں پر اس کا قابو چل گیا۔ مسیح کا مصلوب ہونا چشم دید گواہوں سے کہیں بھی قلمبند نہیں ہوا۔ ہاں سنی سنائی بات پولوس کے مریدوں میں چلی آتی ہے۔ یوسیفس نے ہرگز اس کی گواہی نہیں دی ہے، محققین نصاریٰ خود مقرر ہیں کہ یہ عبارت اصل نسخہ یوسیفس میں نہیں ہے بلکہ یہ پادری صاحبان کی چالاکی ہے۔ دوسرا گواہ لوقا اور متی اور مرقس کی انجیل ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ مسیح کی صلیب شمعون قرینی پر رکھ کر صلیب دینے کے لئے چلے تھے اور یہ دستور تھا کہ جو شخص صلیب دیا جاتا تھا وہ اپنی صلیب آپ اٹھاتا تھا (تفسیر سکاٹ 27 متی 32) گرچہ انہیں مؤرخوں نے اسی تقلید سے یہ بھی کہہ دیا کہ مسیح کو صلیب پر کھینچا مگر ان کی یہ تحریر اصل واقعہ کی طرف صاف اشارہ کر رہی ہے۔ انہیں وجوہ سے خود عیسائیوں کے چند فرقے جو اسلام سے پیشتر تھے مسیح کے سولی دیے جانے کا انکار کرتے تھے جیسا کہ فرقہ ماسلیدی۔ سرہنتی۔ کارپوکراتی۔ دو سیٹی۔ گناستی۔ ناصری ‘ پوئی ان کی تشریح جسکو منظور ہو وہ تاریخ کلیسا دیکھے۔ اس پر بعض پادریوں کا یہ کہنا کہ مسیح کا مصلوب ہونا اور زندہ ہونا اسی وقت سے عیسائیوں میں مسلم الکل ہوگیا تھا دعویٰ بلا دلیل ہے۔ (2) ورافعک الی گرچہ خدا جہت اور مکان سے پاک ہے مگر جہت علوی کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اب جس طرح آسمان کو اس کا مکان قرار دینا غلط ہے۔ اسی طرح نیچریوں کا آسمان کی طرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اٹھائے جانے کا انکار کرنا لغو ہے اور تاویلات رکیکہ ہیں جن کا کوئی اہل مذہب بھی اعتبار نہیں کرسکتا یا صرف روح کی رفعت مراد لینا اور یہ کہنا کہ ما قتلوہ وما صلبوہ میں بھی روح مراد ہے محض بیکار تاویل ہے کس لئے کہ کوئی بھی کسی کی روح کو قتل نہیں کرسکتا نہ یہود کو اس کا دعویٰ تھا نہ فخر۔ پھر روحانی رفعت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی کیا خصوصیت ہے۔ (3) وجاعل الذین اتبعوک الخ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے اول تو حواری اور ان کے تلامذہ تھے پھر جملہ عیسائی اور جملہ مسلمانان ہیں۔ سو یہ خدا کی بشارت پوری ہوئی۔ اس دن سے اب تک اور قیامت تک محمدی اور عیسائی ان کے منکر یہود پر غالب رہے اور رہیں گے انشاء اللہ۔ حضرت عیسیٰ کے تخمیناً چالیس برس بعد طیطوس رومی بادشاہ یہود پر چڑھ آیا اور شہر یروشلم کو ڈھا کر تباہ کردیا اور بیت المقدس کو بھی مسمار کردیا اور لاکھوں بنی اسرائیل کو قتل کردیا اور ہزاروں کو پکڑ کرلے گیا اور غلام بنایا۔ جو کچھ عیسیٰ (علیہ السلام) نے خبر دی تھی کہ یہ کچھ پیش آوے گا وہی پیش آیا۔ اس دن سے اور بھی رہی سہی یہود کی عزت و شوکت خاک میں مل گئی۔ پھر اس دن سے لے کر آج تک وہی حال ہے کہ ان کی حکومت اور سلطنت نہیں۔
Top