Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 55
اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا اللّٰهُ : اللہ يٰعِيْسٰٓى : اے عیسیٰ اِنِّىْ : میں مُتَوَفِّيْكَ : قبض کرلوں گا تجھے وَرَافِعُكَ : اور اٹھا لوں گا تجھے اِلَيَّ : اپنی طرف وَمُطَهِّرُكَ : اور پاک کردوں گا تجھے مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَجَاعِلُ : اور رکھوں گا الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اتَّبَعُوْكَ : تیری پیروی کی فَوْقَ : اوپر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْٓا : کفر کیا اِلٰى : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن ثُمَّ : پھر اِلَيَّ : میری طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹ کر آنا ہے فَاَحْكُمُ : پھر میں فیصلہ کروں گا بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان فِيْمَا : جس میں كُنْتُمْ : تم تھے فِيْهِ : میں تَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے تھے
اس وقت خدا نے فرمایا کی عیسیٰ میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھالوں گا اور تمہیں کافروں (کی صحبت) سے پاک کردونگا اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے ان کو کافروں پر قیامت تک فائق (و غالب) رکھوں گا پھر تم سب میرے پاس لوٹ کر آؤ گے تو جن باتوں میں تم میں اختلاف کرتے تھے اس دن تم میں ان کا فیصلہ کردونگا
(متوفیک ورافعک کی مختلف تفاسیر) (تفسیر) 55۔: (آیت)” اذ قال اللہ یا عیسیٰ ان متوفیک ورافعک “۔ متوفی کے متعلق آئمہ کے مختلف اقوال ہیں ، حسن (رح) کلبی (رح) اور ابن جریج (رح) نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تجھے پکڑ لوں گا اور بغیر موت کے دنیا سے اٹھا کر اپنے پاس لے جاؤں گا جس پر اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت)” فلما توفیتنی “ دلالت کر رہا ہے ، میں نے تمہیں آسمان کی طرف اٹھا لیا اور میں زندہ ہوں اس لیے کہ لوگ کسی کے اٹھائے جانے سے اس کی مدد کرتے ہیں نہ کہ اس کے مرنے کے بعد ، لہذا یہاں پر توفی کی دو تاویلیں کی جائیں گی ،۔ (1) میں نے تجھے اپنی طرف پورا پورا اٹھاؤں گا اور تجھے کوئی چیز ضرر نہیں پہنچا سکے گی ، جیسا کہ عام طور پر محاورات میں بولا جاتا ہے ” توفیت من کذا وکذا واستوفیہ “۔ جب اس کو پورا پورا لیا جائے۔ (2) میں تجھے اپنی سپردگی میں لے لوں گا ، جیسا کہ کہا جاتا ہے ” توفیت من کذا ای تسلمتہ “ میں نے خود اس کو لے لیا اپنی سپردگی میں لے لیاوصول کرلیا ، ربیع بن انس ؓ فرماتے ہیں کہ یہاں توفی سے مراد نیند ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سو گئے تھے ، پھر سونے کی حالت میں ان کو آسمان کی طرف اٹھا لیا ، آیت کا معنی یہ ہوگا ” انی منیمک ورافعک الی “۔ کہ میں آپ کو نیند دے کر پھر اپنی طرف اٹھاؤں گا جیسا کہ اللہ کا فرمان (آیت)” وھو الذی یتوفاکم باللیل “ اللہ وہی ہے جو تم کو رات کو سلاتا ہے بعض نے کہا کہ ” توفی “ سے مراد موت ہے علی بن طلحۃ کی روایت ہے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کا قول نقل کیا کہ اس کا معنی ” انی ممیتک “ ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ” قل یتوفاکم ملک الموت “ اس صورت میں بھی اس کی دو تاویلیں کی جائیں گی ،۔ (1) وھب کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دن کی تین ساعات کے لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو موت عطا کی ، پھر ان کو زندہ کیا ، پھر اپنی طرف اٹھا لیا ، محمد بن اسحاق کا قول ہے کہ نصاری کا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دن کی سات گھڑیوں کے لیے موت عطا کی پھر زندہ کر کے آسمان کی طرف اٹھا لیا۔ (2) ضحاک کا قول یہ ہے کہ آیت میں تقدیم و تاخیر ہوئی ہے عبارت یوں ہوگی ، ” انی رافعک الی ومطھرک من الذین کفروا ومتوفیک ومتوفیک بعد انزالک من السماء “ کہ میں تمہیں پہلے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تجھے یہودیوں کے شر سے محفوظ رکھوں گا پھر آسمان سے نزول کے بعد موت دوں گا ، سعید بن مسیب ؓ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں اور نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے کہ عنقریب تم میں عیسیٰ بن مریم (علیہا السلام) حاکم عادل اتریں گے ، صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے ، جزیہ کو ساقط کردیں گے اور مال کو بہائیں گے کہ کوئی قبول بھی نہیں کرے گا حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے متعلق ارشاد فرمایا کہ اس زمانے میں تمام ادیان باطلہ ختم ہوجائیں گے صرف اسلام باقی رہے گا اور دجال بھی ہلاک ہوجائے گا آپ (علیہ السلام) زمین پر چالیس سال رہیں گے پھر آپ کی وفات ہوجائے گی ، مسلمان آپ کی نماز جنازہ پڑھائیں گے ، حسین بن فضل (رح) سے کہا گیا کہ کیا تم نزول عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق قرآن میں کچھ پاتے ہو ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں ! اور اللہ کا یہ فرمان پڑھا ” وکھلا “ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہولت کے زمانے تک دنیا کی زندگی میں نہیں پہنچے تو لامحالہ یہی مطلب ہوگا کہ دنیا میں اتر کر اس عمر تک پہنچیں گے ، (آیت)” ومطھرک من الذین کفروا “۔ ان کے درمیان سے آپ کو نکالوں گا اور ان سے نجات دوں گا۔ (آیت)” وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ “۔ (اتبعوک سے کون لوگ مراد ہیں) امام قتادہ (رح) ، ربیع (رح) ، شعبی (رح) ، مقاتل (رح) ، کلبی (رح) کہتے ہیں کہ وہ اہل السلام ہوں گے ، جو ان کی رسالت کی تصدیق کریں گے اور ان کی تابعداری کریں گے امت محمدیہ ﷺ میں سے ، یہ ان لوگوں سے بہتر ہوں گے ، جو ظاہرا کفر پر ہوں گے ۔ ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حواریین ہیں کہ ان لوگوں سے افضل ہیں جنہوں نے کفر کیا ، بعض نے کہا کہ وہ اہل روم ہیں ، بعض نے کہا کہ نصاری مراد ہیں ، یعنی یہود کی مملکت ختم ہوجائے گی ، اور نصاری مملکت قیامت تک دائم رہے گی ، اس صورت میں اتباع بمعنی دعا اور محبت کے ہوگی کہ یہ لوگ دین کی اتباع نہیں کریں گے (آیت)” ثم الی مرجعکم “۔ آخرت کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ (آیت)” فاحکم بینکم فیما کنتم فیہ تختلفون “۔ دین کے معاملے میں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس معاملے میں وہ اختلاف کرتے ہیں ۔
Top