Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 55
اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا اللّٰهُ : اللہ يٰعِيْسٰٓى : اے عیسیٰ اِنِّىْ : میں مُتَوَفِّيْكَ : قبض کرلوں گا تجھے وَرَافِعُكَ : اور اٹھا لوں گا تجھے اِلَيَّ : اپنی طرف وَمُطَهِّرُكَ : اور پاک کردوں گا تجھے مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَجَاعِلُ : اور رکھوں گا الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اتَّبَعُوْكَ : تیری پیروی کی فَوْقَ : اوپر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْٓا : کفر کیا اِلٰى : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن ثُمَّ : پھر اِلَيَّ : میری طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹ کر آنا ہے فَاَحْكُمُ : پھر میں فیصلہ کروں گا بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان فِيْمَا : جس میں كُنْتُمْ : تم تھے فِيْهِ : میں تَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے تھے
(وہ وقت بھی قابل ذکر ہے) جب اللہ نے فرمایا،135 ۔ اے عیسیٰ میں تم کو موت دینے والا ہوں،136 ۔ اور تم کو اپنی طرف (ابھی) اٹھالینے والا ہوں،137 ۔ اور ان لوگوں سے جو کافر ہیں تمہیں پاک کرنے والا ہوں،138 ۔ اور جو تمہارے پیرو ہیں انہیں قیامت تک ان لوگوں پر غالب رکھنے والا ہوں جو منکر ہیں،139 ۔ تم سب کی واپسی میری طرف ہوگی سو میں تمہارے درمیان اس باب میں فیصلہ کردوں گا جس میں تم (باہم) اختلاف کرتے رہتے تھے،140 ۔
135 ۔ (حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ان کی گرفتاری کے موقع پر) واقعات و حالات کی رفتار سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا انجام یہ صاف نظر آرہا تھا کہ یہود انہیں گرفتار کئے اور ان پر مقدمہ چلائے بغیر نہ رہیں گے۔ اور پھر رومیوں کی ملکی عدالت میں لے جا کر انہیں سزائے موت دلوائیں گے۔ یہ ارشاد الہی حضرت (علیہ السلام) سے ان کی تسکین کے لیے اسی موقع گرفتار پر ہوتا ہے۔ 136 ۔ (تمہارے وقت معہود پر) سو تم ان ظالموں کے مکر وعداوت سے گھبراؤ نہیں۔ یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اے ستو فی اجلک ومعناہ انی عاصمک من ان یقتلک الکفار ومؤخرک الی اجل کتبتہ لک (کشاف) ممیتک حتف انفک الا قتلا بایدیھم (مدراک) مؤخرک الی اجلک المسمی عاصما ایاک من قتلھم (بیضاوی) انی متمم عمرک فحینئذ اتوفاک فلا اترکھم حتی یقتلوک بل انا رافعک الی سمائی ومقربک بملائکتی واصونک عن ان یتمکنوا من قتلک وھذا تاویل حسن (کبیر) (آیت) ” توفی “ کے معنی میں پورا پورا دینے کا مفہوم شامل ہے۔ اس لئے اشارۃ گویا یہ بھی ارشاد ہوگیا کہ تمہیں طول حیات پورا پورا ملے گا۔ 137 ۔ (اس درمیان میں) یعنی تمہاری وفات تو اپنے وقت مقرر پر جب ہوگی ہوگی، تمہارے دشمن تمہاری ہلاکت کے کسی منصوبہ میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ سردست اس کا انتظام یوں کیا جارہا ہے کہ تمہیں ان کے درمیان سے اٹھا لیا جائے گا۔ (آیت) ” الی “۔ یعنی آسمان کی طرف۔ ملاء اعلی کی جانب۔ امام رازی (رح) نے کہا ہے کہ قرآن میں یہ محاورہ عام ہے۔ جہاں تعظیم وتفخیم مقصود ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اپنی جانب منسوب کردیتا ہے۔ مثلا ہجرت ابراہیمی کی عظمت کا اظہار مقصود تھا تو پیراۂ بیان یہ رکھا گیا۔ (آیت) ” انی ذاھب الی ربی “۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ ہجرت ابراہیمی عراق سے شام کی طرف ہوئی تھی، ای الی سمائی ومقرملائکتی (کشاف) ای محل کر امتی ومقرملائکتی (بیضاوی) ای سمائی ومقرملائکتی (مدارک) (آیت) ” رافعک “۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے رفع جسمانی کی صراحت تو قرآن مجید میں موجود تھی، لیکن قریب بہ صراحت ہونے کے تو یہ عقیدہ قرآن مجید کی اسی آیت میں موجود ہے اور احادیث نے تو اسے اور صاف اور مؤکد کردیا ہے۔ واولی ھذہ الاقوال بالصحۃ عندنا قول من قال معنی ذلک انی قابضک من الارض ورافعک الی لتواتر الاخبار عن رسول اللہ ﷺ (ابن جریر) ممیتک فی وقتک بعد النزول من السماء ورافعک الان (مدارک) ابن جریر ؓ کی عبارت میں لتواتر الاخبار عن رسول اللہ ﷺ کے الفاظ خاص طور پر قابل غور ہیں اور اسی عقیدہ پر محققین امت کا اجماع ہوچکا ہے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی جب پیدائش عام انسانی قاعدۂ توالد وتناسل سے الگ یعنی باپ کے توسط کے محض نفخہ جبریل سے ہوگئی تو اس میں استبعاد کیا ہے۔ بلکہ یہ تو اور قرین قیاس ہے کہ آپ کا انجام بھی معمول عام سے ہٹ کر ہوا۔ اور عجب کیا جو مس ملکی نے آپ کے جسم میں لطافت بھی شروع سے ایسے رکھ دی ہو جو آپ کے صعود آسمانی میں معین ہوسکے۔ اور یہ دلیل تو بالکل بودی ہے کہ آپ کے رفع آسمانی سے آپ کی فضلیت دوسرے انبیاء خصوصا سید الانبیاء پر لازم آجاتی ہے۔ آخر خدا معلوم کتنے فرشتہ دن رات زمین سے آسمان پر جاتے ہی رہتے ہیں تو کیا اس بنا پر وہ سب سید الانبیاء ﷺ سے افضل ہوگئے ؟ ایک یورپین فاضل De Benson بنسن نے پچھلی صدی عیسوی میں ایک مختصر لیکن فاضلانہ کتاب اسلام یا حقیقی مسیحیت Islam or ture christanty کے نام سے لکھی تھی، اس کے صفحہ 143 کے حاشیہ میں اس نے قدیم مسیحی فرقوں میں سے متعدد کے نام لے لے کر لکھا ہے کہ فلاں فلاں فرقہ کا عقیدہ مسیح (علیہ السلام) کے رفع جسمانی کا تھا۔ نہ کہ وفات مسیح (علیہ السلام) کا جس پر اب عیسائی صدیوں سے جمے چلے آتے ہیں۔ اسی طرح سیل Sale نے بھی اپنے انگریزی ترجمہ کے حاشیہ میں بھی اس عقیدہ کے مسیحی فرقوں کے نام گنائے ہیں۔ حیرت ہے کہ اپنے کو مسلمان کہلانے والے ہی ایک جدید فرقہ نے وفات مسیح (علیہ السلام) کا عقیدہ مسیحیوں سے لے لیا ہے اور اسے اپنی خوش فہمی کے کمال ” روشن خیالی “ سمجھ رہا ہے۔ 138 ۔ (آیت) ” الذین کفروا “۔ لفظا بڑا عموم ہے لیکن سیاق سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ وہی لوگ مراد ہیں جو حضرت کی نبوت وصداقت کے منکر تھے یعنی یہود۔ المراد من الموصول الیھود (روح) (آیت) ” من الذین کفروا “ یعنی ان لوگوں کی سختیوں سے ان کی افتراپردازیوں سے۔ مماقالوہ فیک وفی ایتک (بحر) مطلب یہ ہے کہ یہود کے سارے مکائد کھل کر رہ جائیں گے اور انہوں نے جیسے جیسے گندے الزامات تراشے ہیں سب کی قلعی اتر کر رہے گی۔ 139 ۔ (تمہاری نبوت وصداقت کے) (آیت) ” الذین کفروا “۔ سے یہاں پہلی کھلی ہوئی مراد یہود ہی ہے جیسا کہ اوپر کے حاشیہ میں بھی گزر چکا ہے۔ وھم الیھود (کبیر) (آیت) ” الذین اتبعوک “۔ یعنی جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت ونبوت کے قائل ہیں مراد مسلمان اور سچے عیسائی ہیں۔ وقیل ارادبہ النصاری (معالم) قال قتادۃ والربیع والشعبی ومقاتل والکلبی ھم اھل الاسلام (معالم) واما بعد الاسلام فھم المسلمون واما النصاری فھم ان اظہروا من انفسہم موافقتہ فھم یخالفونہ اشد المخالفۃ من حیث ان صریح العقل یشھد انہ (علیہ السلام) ماکان یرضی بشئی ممایقولہ ھؤلآء الجھال (کبیر) (آیت) ” فوق الذین کفروا الی یوم القیمۃ “۔ یہ مسلمانوں اور سچے عیسائیوں کا غلبہ یہود ومعامذین مسیح پر قیامت تک کس معنی میں اور کس حیثیت سے رہے گا ؟ قوت دلائل کے لحاظ سے اور معنوی حیثیت سے تو بالکل ظاہر ہے لیکن اگر مادی، حربی، ملکی وسیاسی حیثیتیں مراد ہوں، تو بھی اس وقت تک جو کیفیت یہود کی دنیا کے ہر حصہ میں ہے انہیں اس پیشگوئی کا مصداق بنانے کے لیے بالکل کافی ہے۔ بہرحال مراد دونوں شقیں ہوسکتی ہیں۔ اے ظاھرین قاھرین بالعزۃ والمنعۃ والحجۃ (معالم) المراد من ھذہ الفوقیۃ فوقیۃ بالحجۃ وفی اکثر الاحوال بھا وبالسیف (مدارک) صاحب کبیر وصاحب معالم دونوں کا زمانہ چھٹی صدی ہجری کا ہے دونوں نے آیت کے تحت میں لکھا ہے کہ یہود کو دیکھو۔ ہر جگہ ذلیل، خوار اور حکومت سے محروم ہیں بہ خلاف اس کے عیسائی بڑی بڑی حکومتوں کے مالک ہیں۔ 140 ۔ (اور وہ فیصلہ تو اس وقت بھی ہوچکا ہے) (آیت) ” مرجعکم “ خطاب یہاں مومن وکافر، مسلمان و یہود۔ نصاری سب سے ہے۔ (آیت) ” فیہ تختلفون “۔ لفظ عام ہیں۔ لیکن سیاق میں جس اختلافی ونزاعی امر کا ذکر ہے وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت ہے۔
Top