Dure-Mansoor - Al-Anfaal : 2
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ
اِنَّمَا : درحقیقت الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الَّذِيْنَ : وہ لوگ اِذَا : جب ذُكِرَ اللّٰهُ : ذکر کیا جائے اللہ وَجِلَتْ : ڈر جائیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاِذَا : اور جب تُلِيَتْ : پڑھی جائیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُهٗ : ان کی آیات زَادَتْهُمْ : وہ زیادہ کریں اِيْمَانًا : ایمان وَّ : اور عَلٰي رَبِّهِمْ : وہ اپنے رب پر يَتَوَكَّلُوْنَ : بھروسہ کرتے ہیں
ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان کے ایمان کو زیادہ کردیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے ہیں
1:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا (آیت) ” الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبہم “۔ یعنی ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ منافق اور اہل ایمان میں فرق : 2:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” انما المومنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبہم “۔ کے بارے میں فرمایا کہ منافق وہ لوگ ہیں کیہ ان کے دلوں میں اللہ کے ذکر میں سے کوئی چیز داخل نہیں ہوتی اس کے فرائض کے ادا کرنے کے وقت اور وہ اللہ کی آیات میں سے کسی چیز پر ایمان نہیں لاتے اور وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہیں کرتے اور وہ نماز نہیں پڑھتے جب وہ غائب ہوتے ہیں اور اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ ایمان والے نہیں ہیں پھر ایمان والوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” انما المومنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبہم “ پس ان کے فرائض کو ادا کرو۔ 3:۔ حکیم ترمذی اور ابن جریر اور ابو الشیخ نے شھربن حوشب (رح) سے روایت کیا کہ ابو درداء ؓ نے فرمایا دل کا کانپ اٹھنا سر اور چہرے کی پھنسیوں کی جلن کی طرح ہے۔ (اے شہر کیا تو اس کو پاتا ہے۔ میں نے کہا ہاں ضرور پھر فرمایا اس وقت دعا کیا کرو کیونکہ دعا اس وقت قبول ہوتی ہے۔ 4:۔ حکیم ترمذی نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ مومن کے دل کا کانپنا پھنسی کی جلن کی طرح ہوتا ہے جب تم میں سے کوئی اس کو پائے تو اس کو چاہئے کہ اس وقت دعا کرے۔ 5:۔ حکیم ترمذی نے ثابت بنائی (رح) سے روایت کیا کہ فلاں نے کہا میں زیادہ جانتا ہوں کب میری دعاقبول کی جاتی ہے لوگوں نے کہا تو اس کو کس طرح جانتا ہے فرمایا جب میری جلد کانپنے لگے اور میرا دل ڈر جائے اور میری آنکھیں بہہ پڑیں تو اس وقت میری دعا قبول کی جاتی ہے۔ 6:۔ ابن ابی شیبہ اور عبد بن حمید اور ابن جریر اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ اور بیہقی نے شعب الایمان میں سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” انما المومنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبہم “۔ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد وہ آدمی ہے جو ظلم کرنے یا گناہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے کہا جاتا ہے اللہ سے ڈر تو اس کا دل کانپ اٹھتا ہے۔ 7:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ (آیت ) ” زادتہم ایمانا “ یعنی ان کا خوف اور زیادہ ہوجاتا ہے۔ ایمان کا کم و زیادہ ہونا : 9:۔ ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا (آیت) ” زادتہم ایمانا “ یعنی ایمان زیادہ ہوتا ہے اور کم ہوتا ہے اس سے مراد قول وعمل ہے۔ 10:۔ ابو الشیخ نے سفیان بن عینیہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ قرآن ناطق ہے ایمان کے زیادہ اور کم ہونے پر اسی کو فرمایا (آیت) ” زادتہم ایمانا “ یعنی دلیل سے ایمان کے زیادہ ہونے پر اور جب ہم غافل ہوجائیں اور ہم بھول جائیں اور ہم ( ایمان کو) ضائع کردیں تو یہ اس کا نقصان ہے۔ 11:۔ حکیم ترمذی نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ اگر ابوبکر ؓ سے ایمان کا زمین والوں کے ایمان سے وزن کیا جائے تو ابوبکر ؓ کا ایمان بڑھ جائے گا۔ 12:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” وعلی ربہم یتوکلون “ یعنی وہ اللہ کے علاوہ کسی اور پر امید نہیں رکھتے۔ 13:۔ ابن ابی شیبہ اور احمد نے زھد میں اور عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب الا ایمان میں سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ایمان کو جمع کرنا ہے۔ 14:۔ بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ایمان کو جمع کرتا ہے۔ 15:۔ ابن ابی حاتم نے دوسرے راستے سے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا آدھا ایمان ہے۔
Top