Ahkam-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 38
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗ١ۚ قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً١ۚ اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ
ھُنَالِكَ : وہیں دَعَا : دعا کی زَكَرِيَّا : زکریا رَبَّهٗ : اپنا رب قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب ھَبْ لِيْ : عطا کر مجھے مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس ذُرِّيَّةً : اولاد طَيِّبَةً : پاک اِنَّكَ : بیشک تو سَمِيْعُ : سننے والا الدُّعَآءِ : دعا
اس وقت زکریا نے اپنے پروردگار سے دعا کی (اور) کہا کہ پروردگار ! مجھے اپنی جناب سے اولاد صالح عطا فرما تو بیشک دعا سننے (اور قبول کرنے) والا ہے
قول باری ہے (قال رب ھب لی من لدنک ذریۃ طیبۃ، زکریا نے کہا پروردگار ! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولادعطاکر) کسی چیز کو اس کی قیمت لیے بغیر کسی کی ملکیت میں دے دیناہبہ کہلاتا ہے۔ عرب کہتے ہیں، قدتواھبوا !ؒلامربینھم، (لوگوں نے اس معاملے کو آپس میں ایک دوسرے کو ہبہ کردیا ہے) اللہ تعالیٰ نے اسے بطورمجازہبہ کا نام دیا ہے۔ اس لیے کہ اس میں ہبہ کا حقیقی معنی نہیں ہے کیونکہ اس میں کسی چیز کی تملیک موجود نہیں ہے۔ پیدا ہونے والا بچہ آزاد ہوتا ہے۔ اس پر کسی کی ملکیت نہیں ہوتی۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا کو خاص طوپرایسا بیٹادینے کا ارادہ فرمایا جوان کی تمنا اور خواہش کے مطابق ہو۔ یعنی وہ اللہ کی عبادت کرے ۔ ان کی نبوت کا وارث ہو۔ اور ان کے علم کا جانشین ہو تو اس پر لفظ ہبہ کا اطلاق کیا جائے گا جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی خاطر جہاد میں اپنی جان لڑادینے کا نام شراء یعنی خرید رکھا ہے چناچہ ارشاد باری ہے (ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ، بیشک اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے اس بات کے بدلے ان کی جان ومال کی خریداری کرلی ہے کہ انہیں جنت ملے گی) حالانہ اللہ تعالیٰ ان کے جہاد پر جانے سے پہلے اور اس کے بعد بھی ان سب کی جان ومال کا مالک تھا۔ اس نے جہاد کرنے والوں کو اجرجزیل دینے کا جو وعدہ کررکھا ہے اس بناپر اس عمل کا نام شرارکھا ہے۔ بعض دفعہ ایک کہنے والا کہتا ہے، ھب لی جنایۃ فلان، (فلاں پر عائدہونے والاجرمانہ مجھے ہبہ کردو) کہنے والے کی اس سے مادتملیک نہیں ہوتی بلکہ جرمانے کے حکم کا اسقاطہ مراد ہوتا ہے۔
Top