Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 174
وَّ سُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًاؕ
وَّسُيِّرَتِ الْجِبَالُ : اور چلا دیئے جائیں گے پہاڑ فَكَانَتْ : تو ہوں گے وہ سَرَابًا : سراب
جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو یہ ان کے فعلوں کی سزا اور خدا کی طرف سے عبرت ہے۔ اور خدا زبردست اور صاحب حکمت ہے۔
حکم سیزدھم، حد سرقہ۔ قال تعالیٰ والسارق والسارقۃ۔۔۔ الی۔۔۔ رحیم۔ آیت۔ ربط) گذشتہ آیت میں قطع الطریق کا بیان تھا جو سرقہ کبری کہلاتا ہے اب اس آیت میں سرقہ صغری چوری کی سزا کا بیان ہے ڈاکو کھلم کھلا لوٹتے ہیں اور چورچھپ کر کر چوری کرتے ہیں پہلی آیت میں ڈاکہ کا بیان کیا اب اس آیت میں چوری کا حکم بیان کرتے ہیں اور جو مرد چوری کرے اور سی طرح جو عورت چوری کرے تو کاٹ ڈالو ان کے داہنے ہاتھ گٹے پر سے بطور سزا کے اس کردار بد اور برے عمل کے عوض اور بدلہ میں خدا کی طرف سے عبرت اور تنبیہ کے لی یعنی یہ سزا جو چورکودی جارہی ہے وہ مال مسروق کا عوض اور بدلہ نہیں بلکہ اس کے فعل سرقہ کی سزا ہے تاکہ اس سے دوسروں چوروں کو تنبیہ اور عبرت ہوجائے بلاشبہ جہاں کہیں یہ سزا جاری ہوئی اور چوروں کا ایک مرتبہ ہاتھ کاٹا گیا توقطعا چوری کا دروزہ بندہوجاتا ہے اور جب سے یہ سزا موقوف ہوئی اور عدالتی کاروائی شروع ہوئی اس وقت سے چوری کا دروازہ خوب کھل گیا ہے اور اللہ بڑی عزت والا اور حکمت والا ہے کہ چوری کرنے والاکتنا ہی معزز کیوں نہ ہو وہ اس عزیز حکیم کی مقرر کردہ سزا سے نہیں نکل سکتا اس کی حکمت کا تقاضایہ ہے کہ امن عالم اور باشندگان ملک کیا اموال واملاک کی حفاظت کی خاطر وہ ہاتھ ہی کاٹ دیا جائے کہ جو اس جرم عظیم کا مرتکب ہوا الغرض یہ تو چور کی دنیوی سزا ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی رہا یہ امر کہ آخرت کی عقوبت ور سزا ٹل سکتی ہے یا نہیں سو اس کا حکم یہ ہے کہ جس نے اپنے اس ظلم وستم کے بعد توبہ کرلی اور اپنی حالت درست کرلی تو بیشک اللہ تعالیٰ اس کو توبہ قبول فرمالیتے بیشک اللہ بڑا بخشنے والا بڑا مہربان ہے بغیر توبہ کے آخرت کا گناہ معاف نہیں ہوتا اور سرقہ کی حد تو بہ کرنے سے بھی معاف نہیں ہوتی ورنہ چور چوری کرنے کے بعد توبہ کرلیا کریں گے اور سرقہ کی سزا سے رہا ہوجایاکریں گے توبہ سے اللہ کا حق معاف ہوجاتا ہے تو بہ سے بندوں کے حق معاف نہیں ہوتے محض توبہ کرنے سے چور سزا سے نہیں بچ سکتا۔ لطائف ومعارف۔ (1) ۔ کتاب وسنت نے چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا مقرر کی ہے جو غایت درجہ عادلانہ اور حکیمانہ سزا ہے اور اس عبرت ناک سز اکودیکھ کر چور اور قزاق عبرت پکڑیں گے اور تمام ملک کے اموال اور املاک ظالموں کی دستبرد سے محفوظ ہوجائیں گے آج کل کے مدعیان تہذیب اس قسم کی سزا کو وحشیانہ سزا کے نام سے موسوم کرتی ہیں لیکن ان کو یہ خیال نہیں آتا کہ کہ چوری بھی کوئی وحشیانہ حرکت ہی اگر کسی وحشیانہ حرت کے انسداد کے لیے وحشیانہ سزا تجویز کردی جائے تو کیا مضائعہ ہے چوری اگر تہذیب کے مطابق ہوتی تب تو یہ کہنا بجا ہوتا کہ چور کا ہاتھ کاٹنا خلاف تہذیب ہے گویا کہ یہ تعلیم یافتہ طبقہ ان چوروں کا وکیل بنا ہوا ہے جن کے نزدیک چوری تو خلافت تہذیب نہیں البتہ چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا یہ خلاف تہذیب ہے۔ حکایت۔ ابوالعلاء شاعر نے حد سرقہ پر اعتراض کیا کہ جب شریعت نے ایک ہاتھ کی دیت پانسو دینار رکھی ہے تو اتنا قیمتی ہاتھ جس کے کاٹ ڈالنے سے پانچ سو دینار واجب ہوں وہ دس پانچ درہم کی چوری میں کیسے کاٹا جاسکتا ہے۔ اور یہ شعر پڑھے، ید بخمس مئین عسجد ودیت مابالہا قطعت فی ربع دینار تحکم مالنا الاالسکوت لہ، وان نعوذ بمولانا من النار۔ قاضی عبدالوہاب مالکی (رح) تعالیٰ نے اس کے جواب میں کیا خوب فرمایا۔ لما کانت امینۃ کانت ثمینہ ولما خانت ھانت۔ جب تک وہ ہاتھ امین تھا تو بڑا قیمتی تھا اور جب اس نے خیانت کی تو ذلیل و خوار ہوگیا۔ (2) ۔ یہ سزا نبی ﷺ نے اپنی حیات میں دی جیسا کہ احادیث صحیح میں بکثرت وارد ہے اور آپ کے بعد خلفاء راشدین سے لے کر خلفاء بنی العباس تک اسی قانون پر عمل درآمد ہوتا رہا اور شاہان اسلام کے دور حکومت میں قضاۃ اور حکام یہ حد جاری کرتے رہے کتب تاریخ اس پر شاہد عدل ہیں جب سے مغربی تہذیب کا دور دورہ شروع ہوا اور یہ شرعی سزا موقوف ہوئی اس وقت سے چوری کا بازار گرم ہے بدمعاش لوگ جیل خانہ کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور اس زمانہ میں تو عدالت کی کوئی وقت نہیں رشوت اور سفارش سے بری ہوجاتے ہیں۔ 3) ۔ اس آیت میں اللہ نے صرف چور کے ہاتھ کاتنے کا حکم دیا ہے مگر اس کی تصریح نہیں فرمائی کہ کون ساہاتھ کاٹاجائے اور کس جگہ سے کاٹا جائے لیکن احادیث صحیحہ اور اجماع امت سے ثابت ہے کہ داہنا ہاتھ پہنچے سے کاٹا جائے۔ 4) ۔ رہایہ امر کہ کس قدر مال کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے سو اس بارے میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے امام شافعی کے نزدیک ربع دینار کی چوری پر قطع ید لازم ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک دس درہم کی چوری پر اور امام مالک اور امام احمد کے نزدیک تین درہم کی چوری پر تفصیل کے لیے شروع ھدایہ اور شروخ بخاری کو دیکھیے۔ 5) ۔ شریعت نے چوری کی سزا میں ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا مگر زنا کی سزا میں زانی کی شرمگاہ قطع کرنے کا حکم نہیں دیا اس لیے کہ شرمگاہ کے قطع کرنے سے قطع نسل لازم آئے گا اس لیے یہ امر مشروع نہ ہوا۔
Top