Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Az-Zumar : 34
وَ مَنْ یُّوَلِّهِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَهٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰى فِئَةٍ فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ مَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
وَمَنْ
: اور جو کوئی
يُّوَلِّهِمْ
: ان سے پھیرے
يَوْمَئِذٍ
: اس دن
دُبُرَهٗٓ
: اپنی پیٹھ
اِلَّا
: سوائے
مُتَحَرِّفًا
: گھات لگاتا ہوا
لِّقِتَالٍ
: جنگ کے لیے
اَوْ
: یا
مُتَحَيِّزًا
: جا ملنے کو
اِلٰي
: طرف
فِئَةٍ
: اپنی جماعت
فَقَدْ بَآءَ
: پس وہ لوٹا
بِغَضَبٍ
: غصہ کے ساتھ
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَمَاْوٰىهُ
: اور اسکا ٹھکانہ
جَهَنَّمُ
: جہنم
وَبِئْسَ
: اور بری
الْمَصِيْرُ
: پلٹنے کی جگہ (ٹھکانہ)
اور جو شخص جنگ کے روز اس صورت کے سوا کہ لڑائی کے لئے کنارے کنارے چلے (یعنی حکمت عملی سے دشمن کو مارے) یا اپنی فوج میں جا ملنا چاہے۔ ان سے پیٹھ پھیرے گا تو (سمجھو کہ) وہ خدا کے غضب میں گرفتار ہوگیا اور اسکا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے۔
دشمن کی طرف جانے والے لشکر سے فرار کا بیان قول باری ہے ومن یولھم یومئذدبرہ الامتحرفاً لقتال اومتحیزاً الی فئۃ فقد باء بغضب من اللہ وماولہ جھنم۔ جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری۔ الایہ کہ جنگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لئے۔ تو وہ اللہ کے غضب میں گھر جائے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا) ابونضرہ نے حضرت ابوسعید ؓ سے روایت کی ہے کہ یہ بات معرکہ بدر کے لئے کہی گئی تھی ابونضرہ کہتے ہیں کہ اگر اس دن مسلمان کسی دوسری فوج سے جا ملتے تو وہ مشرکین کی فوج کے سوا اور کوئی فوج نہ ہوتی اس لئے کہ ان مسلمانوں کے سوا اس دن مسلمانوں کا کوئی اور جتھا نہیں تھا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ابونضرہ کی یہ بات درست نہیں ہے اس لئے کہ مدینہ کے اندر انصار کے بہت سے لوگ موجود تھے حضور ﷺ نے انہیں اسلامی لشکر کے ساتھ چلنے کا حکم نہیں دیا تھا اور خود یہ لوگ جنگ کے امکان کے بارے میں سوچ نہیں رہے تھے۔ انکا خیال تھا کہ بس تجارتی قافلے سے مڈبھیڑ ہوگی اس لئے حضور ﷺ ان ہی لوگوں کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے جو آپ ﷺ کے ساتھ چل پڑے تھے۔ اس لئے ا بونضرہ کا یہ قول غلط ہے کہ اس دن بدر کے میدان میں موجود مسلمانوں کے سوا اور کہیں مسلمان نہیں تھے۔ نیز یہ کہ اگر مسلمان کسی فوج کے ساتھ جا ملتے تو وہ مشرکین کی فوج ہوتی۔ ایک قول یہ ہے کہ اس دن مسلمانوں کے لئے کسی اور فوج کے ساتھ جا ملنا جائز ہی نہیں تھا اس لئے کہ مسلمان حضور ﷺ کی معیت میں تھے اور حضور ﷺ کی معیت چھوڑ کر کسی اور کی معیت اختیار کرلینا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ماکان لاھل المدینۃ ومن حولھم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسول اللہ ولایرغبوا بانفسھم عن نفسہ۔ مدینے کے باشندوں اور گرد و نواح کے بدویوں کو یہ ہرگز زیبا نہ تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہتے اور اس کی طرف سے بےپروا ہو کر اپنے اپنے نفس کی کر میں لگ جاتے) اس لئے مسلمانوں کے واسطے حضور ﷺ کا ساتھ چھوڑ کر واپس ہوجانا اور آپ کو تنہا چھوڑ جانا جائز ہی نہیں تھا اگرچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد اور لوگوں سے آپ کی حفاظت کی ذمہ داری خود اٹھانی تھی چناچہ ارشاد باری ہے واللہ یعصمک من الناس۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا) حضور ﷺ کا ساتھ دینا مسلمانوں پر فرض تھا خواہ دشمنوں کی تعداد زیادہ ہوتی یا کم۔ نیز آیت زیر بحث میں وارد لفظ فئۃ کا اس دن مصداق حضور ﷺ کی ذات اقدس تھی اس لئے جو شخص اس دن میدان کارزار سے کنارہ کشی کرتا تو اس کی یہ کنارہ کشی اس صورت میں جائز ہوتی جب وہ کسی فئۃ یعنی پشت پناہ سے جا ملنے کا ارادہ کرتا اور ظاہر ہے کہ اسی دن اس لفظ کا مصداق حضور ﷺ کی ذات اقدس کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ آپ ہی مسلمانوں کے لئے فئۃ یعنی پشت پناہ تھے۔ اس کی مزید وضاحت اس روایت سے ہوتی ہے حضرت ابن عمر ؓ کا بیان ہے کہ میں ایک فوجی دستے میں شامل تھا کچھ لوگ میدان کارزار سے پیچھے ہٹے اور مدینہ کی طرف واپس ہوگئے، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا۔ ہم نے سوچا کہ میدان سے بھاگ کر ہم تو فرار ہونے والے بن گئے اور آیت میں مذکورہ وعید کے سزاوار ہوگئے۔ اس پر حضور ﷺ نے ہمیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تم فرار ہونے والے قرار نہیں پاتے۔ میں تمہارے لئے فئۃ یعنی پشت پناہ ہوں۔ یعنی تم لوگ بھاگ کر میری طرف آئے ہو اس لئے آیت میں مذکورہ وعید کے مستحق نہیں بنوگے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جو شخص حضور ﷺ سے دور ہوتا جب وہ کفار کے مقابلے سے ہٹ آتا تو اس کے لئے فئۃ کی طرف پلٹ آنا جائز ہوجاتا اس لئے کہ ایسی حالت میں حضور ﷺ کی ذات اقدس اس کے لئے فئۃ بن جاتی لیکن جب حضور ﷺ خود مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوتے تو اس صورت میں آپ ﷺ کی ذات کے سوا مسلمانوں کے لئے کوئی اور فئۃ نہ ہوتا جس کی طرف ان کے لئے ہٹ آنا جائز ہوتا۔ ایسی صورت میں پھر کسی مسلمان کے لئے میدان کارزار سے ہٹنا جائز نہیں ہوسکتا۔ قو ل باری ومن یولھم فومئذ دبرہ) کے متعلق حسن کا قول ہے کہ اس میں اہل بدر پر سختی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعن انما استزلھما الشیطن ببعض ماکسبوا۔ تم میں سے جو لوگ پیٹھ پھیر گئے تھے ان کی لغزش کا سبب یہ تھا کہ ان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے ان کے قدم ڈگمگا دیئے تھے) ایسا اس لئے کہا گیا کہ یہ لوگ حضور ﷺ کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ معرکہ حنین کے دن بھی مسلمانوں سے یہی لغزش ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے اپنے قول ویوم حنین اذا عجبتکم کثرتکم فلم یغن عنکم شیئاً وضاقت علیکم الارض بمارحبت ثم ولیتم مدبرین۔ ابھی غزوہ حنین کے روز (تم اس کی دستگیری کی شان دیکھ چکے ہو) اس روز تمہیں اپنی کثرت تعداد کا غرہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے) کے ذریعہ ان پر عتاب فرمایا۔ جنگ سے فرار کے اصول مسلمانوں کے میدان کارزار چھوڑکر بھاگنے کے عدم جواز کا یہ حکم اس لئے تھا کہ جب حضور ﷺ بنفس نفیس ان کے ساتھ ہوتے تھے خواہ دشمن کی تعداد تھوڑی ہوتی یا زیادہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں ان کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا یایھا النبی حرض المومنین علی القتال ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا ممائتین وان یکن منکم مائۃ یغلبوا الفاً من الذین کفروا۔ اے نبی ﷺ ! مومنوں کو جنگ پر ابھارو، اگر تم میں سے بیس آدمی صابرہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے) یہ حکم۔۔ واللہ اعلم…اس صورت کے لئے تھا جب حضور ﷺ ان کے ساتھ موجود نہ ہوتے اس صورت میں بیس آدمیوں پر دو سو کے مقابلہ میں ڈٹ جانا ضروری ہوتا اور انہیں پیچھے ہٹنے کی اجازت نہ ہوتی جب دشمنوں کی تعداد اس سے زیادہ ہوتی تو ان کے لئے میدان کارزار چھوڑ کر مسلمانوں کے کسی گروہ کی طرف پلٹ آنا جائز ہوتا جس کی مدد لے کر پھر دوبارہ میدان کارزار گرم کرتے پھر یہ حکم اس قول باری کے ذریعے منسوخ ہوگیا۔ اچھا ! اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو وہ دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ مسلمانوں پر یہ فرض تھا کہ ان کا ایک آدمی دس کے مقابلہ سے بھی نہ بھاگے۔ پھر یہ بوجھ ہلکا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا الان خفف اللہ عنکم تا آخر آیت مسلمانوں پر یہ فرض کردیا گیا کہ ان کے ایک سو آدمی دو سو کے مقابلہ سے نہ بھاگیں۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ اگر ایک شخص دو کے مقابلے سے بھاگے گا تو وہ فرار ہونے والا کہلائے گا لیکن اگر وہ تین کے مقابلہ سے بھاگے گا تو اسے فرار ہونے والا نہیں کہیں گے۔ ابن عباس ؓ کا قول ابوبکر حبصاص حضرت ابن عباس ؓ کے قول کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو شخص دو کے مقابلہ سے بھاگے گا وہ اس زحفا یعنی لشکر سے فرار ہونے والا کہلائے گا جو آیت میں مراد ہے آیت میں ایک مسلمان پر دو کافروں کے مقابلہ میں ڈٹ جانا واجب کردیا گیا ہے اگر کافروں کی تعداد دو سے زائد ہو تو اسی صورت میں اس ایک مسلمان کے لئے میدان سے ہٹ کر مسلمانوں کے کسی ایسے گروہ کی طرف پلٹ آنا جائز ہوگا جو میدان کارزار گرم کرنے کے لئے اس کی مدد کرسکتا ہو لیکن یہ ایک مسلمان اگر مسلمانوں کے کسی ایسے گروہ کی طرف پلٹ جانے کی نیت سے میدان کارزار چھوڑ دے گا۔ جو اس کی مدد کے لئے آمادہ نہ ہو تو اس صورت میں فرار ہونے والا یہ شخص اس وعید کا مستحق قرار پائے گا جس کا ذکر اس آیت میں ہے ومن یولھم یومئذ دبرہ) تا آخر آیت۔ اسی بنا پر حضور ﷺ کا ارشاد ہے انا فئۃ کل مسلم۔ میں ہر مسلمان کے لئے پشت پناہ ہوں۔ حضرت عمر ؓ کو جب یہ اطلاع ملی کہ ابوعبید بن مسعود ؓ نے جنگ کے دن لڑائی جاری رکھی اور جان جوکھوں میں ڈال کر لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے لیکن پسپا نہیں ہوئے تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ابوعبیدہ پر رحم فرمائے اگر وہ میدان جنگ سے ہٹ کر میری طرف پلٹ آتے تو میں ان کے لئے فئۃ بن جاتا “۔ پھر جب ابوعبید کے رفقا میدان چھوڑ کر حضرت عمر ؓ کے پاس پہنچ گئے تو آپ ؓ نے ان سے فرمایا کہ ” میں تمہارے لئے فئۃ ہوں “۔ آپ نے میدان چھوڑنے کی بنا پر ان پر کوئی سختی نہیں کی ہمارے نزدیک یہ حکم اس وقت تک ثابت رہے گا جب تک مسلمانوں کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار تک نہ پہنچ جائے۔ پسپائی بطور جنگی چال اگر بارہ ہزار سے تعداد کم ہو تو ان کے لئے اپنے سے دو چند دشمن کے مقابلہ سے پسپا ہونے کی صرف وہ صورتیں جائز ہوں گی ایک تو جنگی چال کے طور پر پسپائی اختیار کرنا درست ہوگا، اس کی صورت یہ ہوگی کہ دشمن کو چکمہ دینے کی خاطر اپنی جگہ سے ہٹ کر کسی اور جگہ چلے جائیں مثلا تنگ جگہ سے نکل کر کشادہ جگہ میں آجائیں یا اس کے برعکس صورت اختیار کریں یا دشمن کی گھات پر چھپ کر بیٹھ جائیں یا کوئی صورت جس میں جنگ سے منہ پھیر کر بھاگنا نہ پایا جاتا ہو۔ جواز کی دوسری صورت یہ ہے کہ دشمن کے سامنے سے پسپائی اختیار کر کے مسلمانوں کے کسی اور فوج یا گروہ سے جا ملیں اور ان کے ساتھ ملکر دوبارہ میدان کارزار گرم کریں لیکن جب مسلمانوں کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار ہوجائے تو امام محمد بن الحسن کے قول کے مطابق ان کے لئے کسی بھی صورت میں پسپائی اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا خواہ دشمن کی تعداد کتنی زیادہ کیوں نہ ہو۔ امام محمد نے اس مسئلے میں ہمارے اصحاب کے درمیان کسی اختلاف کا ذکر نہیں کیا ہے۔ بہترین لشکر انہوں نے اس مسئلے میں ابن شہاب زہری کی روایت سے استدلال کیا ہے جسے انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے خیرالاصحاب اربعۃ وخیرالسرایا اربح مائۃ وخیرالجیوش اربعۃ آلاف ولن یوتی اثنا عشرالضامن قلۃ ولن یغلب۔ بہترین رفاقت وہ ہے جس میں چار افراد شامل ہوں بہترین فوجی دستہ وہ ہے جس میں چار سو کی نفری ہو اور بہترین لشکر وہ ہے جس میں چار ہزار کی نفری ہو بارہ ہزار نفری پر مشتمل فوج قلت تعداد کی بنا پر شسکت نہیں کھا سکتی اور کبھی مغلوب نہیں ہوسکتی) بعض طرق میں ہے ماغلب قوم یبعثون اثنی عشرالفا اذاجتمعت کلمتھم۔ وہ قوم کبھی مغلوب نہیں ہوسکتی جو بارہ ہزار نفری پر مشتمل فوج کھڑی کر دے بشرطیکہ اس فوج میں مکمل اتحاد ہو۔ طحاوی نے ذکر کیا ہے کہ امام مالک سے کسی نے سوال کیا کہ آیا ہمارے لئے ایسے لوگوں کے مقابلہ سے پیچھے ہٹ آنے کی گنجائش ہے جو اللہ کے احکام کو چھوڑ کر اپنے احکام کے مطابق فیصلے کرتے ہوں “۔ انہوں نے اس کے جواب میں فرمایا اگر تمہارے ساتھ تمہاری طرح بارہ ہزار کی نفری ہو تو پھر تمہارے لئے پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں۔ اگر یہ تعداد نہ ہو تو پھر تمہارے لئے پیچھے ہٹ آنے کی گنجائش ہے۔ امام مالک سے یہ سوال عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز بن عبداللہ بن عمر ؓ نے کیا تھا۔ یہ مسلک امام محمد کے ذکر کردہ مسلک سے مطابقت رکھتا ہے۔ بارہ ہزار نفری کے متعلق حضور ﷺ سے جو روایت منقول ہے وہ اس مسئلے کی بنیاد ہے۔ اگر مشرکین کی تعداد زیادہ بھی ہو تو بھی بارہ ہزار نفری کو ان کے مقابلہ سے پسپا ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ خواہ مشرکین ان سے کئی گنا زیادہ کیوں نہ ہوں۔ اس لئے کہ حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق اس صورت میں پسپائی اختیار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے البتہ اس صورت میں ان پر جو چیز واجب کی گئی ہے وہ ان کا اتحاد اور ان کی یکجہتی ہے۔
Top