Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 61
وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ١ؕ قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَمِنْهُمُ
: اور ان میں سے
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يُؤْذُوْنَ
: ایذا دیتے (ستاتے) ہیں
النَّبِيَّ
: نبی
وَيَقُوْلُوْنَ
: اور کہتے ہیں
هُوَ
: وہ (یہ)
اُذُنٌ
: کان
قُلْ
: آپ کہ دیں
اُذُنُ
: کان
خَيْرٍ
: بھلائی
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
يُؤْمِنُ
: وہ ایمان لاتے ہیں
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَيُؤْمِنُ
: اور یقین رکھتے ہیں
لِلْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں پر
وَرَحْمَةٌ
: اور رحمت
لِّلَّذِيْنَ
: ان لوگوں کے لیے جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
مِنْكُمْ
: تم میں
وَالَّذِيْنَ
: اور جو لوگ
يُؤْذُوْنَ
: ستاتے ہیں
رَسُوْلَ اللّٰهِ
: اللہ کا رسول
لَهُمْ
: ان کے لیے
عَذَابٌ
: عذاب
اَلِيْمٌ
: دردناک
اور ان میں بعض ایسے ہیں جو پیغمبر ﷺ کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے (ان سے) کہہ دو کہ (وہ) کان (ہے تو) تمہاری بھلائی کے لئے۔ اور خدا کا اور مومنوں (کی بات) کا یقین رکھتا ہے۔ اور جو لوگ تم میں ایمان لائے ہیں انکے لئے رحمت ہے۔ اور جو لوگ رسول خدا ﷺ کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم (تیار) ہے۔
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) اپنے باپ بیٹے اور بیوی کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ ان اقوال کی روشنی میں فقہاء کا اس پر اتفاق ثابت ہوگیا کہ والد، ولد اور زوجہ کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے صانت ومالک لابیک تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے) نیز ارشاد ہوا (ان اطیب ما اکل الرجال من کسبہ وان ولدہ من کسبہ۔ اور انسان کا بیٹا بھی اس کی کمائی ہے) جب ایک شخص کا مال اس کے باپ کی طرف منسوب و مضاف ہو اور اس کی یہ صفت بیان کی جائے کہ وہ بھی اس کی کمائی ہے تو اس صورت میں اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو زکوٰۃ دے گا تو اس پر اس کی ملکیت باقی رہے گی اس لئے کہ اس کے بیٹے کی ملکیت بھی اس کی طرف ہی منسوب ہے۔ اس صورت میں ادا شدہ زکوٰۃ صدقہ صحیحہ نہیں بنے گا۔ جب یہ بات بیٹے کے حق میں درست ہے تو باپ بھی اسی کی طرح ہے۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک ولادت کے واسطے سے دوسرے کی طرف منسوب ہے۔ نیز ہمارے نزدیک یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی دوسرے کے حق میں گواہی باطل ہے۔ جب ہر ایک کی گواہی سے دوسرے کو ملنے والے حق کی یہ حیثیت قرار پائی کہ گویا گواہی دینے والے نے اپنی ذات کے لئے اس حق کو حصول کی گواہی دی ہے اس لئے یہ گواہی باطل ہے۔ اسی طرح ان میں سے ایک کی طرف سے دوسرے کو زکوٰۃ کی ادائیگی کی یہ حیثیت ہوگی کہ گویا زکوٰۃ دینے والے نے اس زکوٰۃ کو اپنی ملکیت میں ہی باقی رکھا ہے جبکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے اس پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی تھی کہ وہ زکوٰۃ کی رقم اپنی ملکیت سے نکال کر درست طریقے سے فقیر کی ملک بنادے لیکن جب وہ زکوٰۃ کی اس رقم کو ایسے شخص کے حوالے کردے گا جس کی گواہی اس کے حق میں درست تسلیم نہیں کی جاتی تو اس صورت میں اس رقم سے اس کا حق منقطع نہیں ہوگا اور اس کی حیثیت یہ ہوگی کہ گویا وہ ابھی اس کی ملکیت میں ہی ہے۔ اس لئے اس کی زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ اسی علت کی بنا پر شوہر کے لئے زکوٰۃ کی رقم اپنی بیوی کو دے دینا جائز نہیں ہے۔ زکوٰۃ کے سلسلے میں نفقہ کے اعتبار سے کوئی معنی نہیں ہیں اس لئے کہ نفقہ ایک حق ہے جو اسے لازم ہوجاتا ہے۔ اور یہ ان دیون سے زیادہ ٹوک نہیں ہوتا جن کا ایک پر دوسرے کی طرف سے ثبوت ہوجاتا ہے لیکن ایک پر دوسرے کی طرف سے اس کا ثبوت اسے زکوٰۃ کی رقم حوالہ کرنے میں مانع نہیں ہوتا۔ آیت کا عموم فقر کے نام پر اسے زکوٰۃ کی رقم دے دینے کے جواز کا مقتضی ہے اور اس کی تخصیص کی کوئی دلالت بھی قائم نہیں ہوئی ہے اس لئے نفقہ کو بنیاد بناکر آیت کے عموم سے اسے خارج کردینا جائز نہیں ہے۔ نیز حضور ﷺ کا ارشاد ہے (خیر الصدقۃ ماکان عن ظھر غنی وابدأ لمن تعول، بہترین صدقہ وہ ہے جو مال داری کی پشت پناہی میں کی جائے اور اس کی ابتداء اس شخص سے کرو جس کانان و نفقہ تمہارے ذمہ ہے) اس ارشاد کا عموم ان تمام لوگوں کو ہر قسم کے صدقہ کی رقم دینے کے واز کا مقتضی ہے جن کا نان و نفقہ صدقہ دینے والے کے ذمے ہے۔ البتہ اس حکم سے والد، ولد اور زوجین کسی اور دلالت شرعی کی بنا پر خارج ہوگئے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ولادہ اور ولد کا ایک دوسرے کو زکوٰۃ کی رقم حوالے کرنا اس لئے جائز ہے کہ ایک پر دوسرے کا نفقہ لازم ہوتا ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ اگر والد اور ولد گزارے کی مقدار کے مالک ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے مستغنی ہوتے اور زکوٰۃ ادا کرنے والے پر دوسرے کا نفقہ واجب نہ ہوتا تو اس صورت میں بھی اسے زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہ ہوتا۔ اس لئے کہ چاہے ایک پر دوسرے کا نفقہ واجب ہو، چاہے واجب نہ ہو، ہر صورت میں ایک کی زکوٰۃ دوسرے کے حوالے کرنے کی ممانعت ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ایک کی زکوٰۃ دوسرے کے حوالے کرنے کو یہ امر مانع ہے کہ ان میں سے ہر ایک ولادت کے واسطے سے دوسرے کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ ان میں سے ہر ایک کی دوسرے کے حق میں گواہی جائز نہیں ہوتی۔ اور ان دونوں باتوں میں سے ہر ایک، زکوٰۃ حوالے نہ کرنے کے حکم کی علت بن رہی ہے۔ کیا بیوی شوہر کو زکوٰۃ دے سکتی ہے ؟ عورت اپنے شوہر کو زکوٰۃ کا مال دے سکتی ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا قول ہے کہ عورت شوہر کو اپنی زکوٰۃ نہیں دے گی۔ امام ابو یوسف، امام محمد، سفیان ثوری اور امام شافعی کا قول ہے کہ زکوٰۃ دے سکتی ہے۔ پہلے قول کی دلیل یہ ہے کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ زوجین میں سے ہر ایک کی دوسرے کے حق میں گواہی جائز نہیں ہے تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ زوجین میں سے ہر ایک کی دوسرے کے حق میں گواہی جائز نہیں ہے تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کو اپنی زکوٰۃ نہ دے کیونکہ ہر صورت میں وہ علت موجود ہے جو ایک کی زکوٰۃ دوسرے کے حوالے کرنے سے مانع ہے۔ اس مسئلے میں جواز کے قائلین نے حضرت ابن مسعود ؓ کی بیوی زینب کی روایت سے استدلال کیا ہے انہوں نے حضور ﷺ سے پوچھا تھا کہ آیا وہ اپنے شوہر کو نیز اپنے بھائی کے یتیم بچوں کو جو ان کی پرورش میں تھے صدقہ دے سکتی ہیں ؟ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا تھا (لک اجر ان اجر الصدقۃ واجر لاقرابۃ تمہیں دو اجر ملیں گے ایک تو صدقہ کا اجر اور دوسرا قرابت داری کی پاسداری کا اجر) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ دراصل نفلی صدقہ تھا۔ حدیث کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں۔ اس لئے کہ روایت میں یہ مذکور ہے کہ جب حضور ﷺ نے عورتوں کو صدقہ دینے کی ترغیب دی تھی اور انہیں اس پر ابھارا تھا تو اس موقعہ پر حضرت زینب ؓ نے یہ بات حضور ﷺ سے پوچھی تھی، وہ کہتی ہیں کہ جب آپ ﷺ نے عورتوں سے فرمایا (تصدقن ولو بج لیکن۔ صدقہ دو خواہ زیورات ہی کیوں نہ ہوں) تو میں نے اپنے چند زیور اکٹھے کرکے انہیں صدقہ کردینے کا ارادہ کیا، اس موقعہ پر میں نے حضور ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا۔ “ یہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ نفلی صدقہ تھا۔ اگر یہ حضرات اس روایت سے استدلال کریں جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی انہیں ابن ناجیہ نے، انہیں احمد بن حاتم نے ، انہیں علی بات ثابت نے، انہیں یحییٰ بن ابی انیسہ الجزری نے حماد بن ابراہیم سے، انہوں نے علقمہ سے، انہوں نے حضرت عبداللہ ؓ سے کہ ان کی بیوی زینب ثفیہ نے حضور ﷺ سے دریافت کیا تھا کہ ” میرے پاس گلے کا زیور ہے جس میں بیس مثقال سونا ہے۔ آیا میں اس کی زکوٰۃ ادا کروں گی ؟ آپ ﷺ نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ” نصف مثقال ادا کرو۔ “ انہوں نے نے مزید کہا کہ ” میری پرورش میں میرے بھائی کے یتیم بچے ہیں، آیا یہ زکوٰۃ میں انہیں دے دوں یا ان پر خرچ کردوں ؟ “ آپ نے اثبات میں اس کا جواب دیا تھا۔ اس روایت میں یہ بیان ہوا کہ حضرت زینب ؓ نے اپنی زکوٰۃ ادا کی تھی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس روایت میں شوہر کو زکوٰۃ دینے کا ذکر نہیں ہے صرف یتیم بھتیجوں کو دینے کا ذکر ہے۔ ہم بھی اس کے جواز کے قائل ہیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر اور یتیم بھتیجوں کو صدقہ کے طور پر کچھ دینے کے متعلق پوچھا ہو نیز یہ کہ آیا وہ یہ زکوٰۃ اپنے یتیم بھتیجوں کو دے سکتی ہیں آپ ﷺ نے اس کی اجازت دے دی ہو۔ ہم بھی اس کے جواز کے قائل ہیں۔ کیا ذمی کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ؟ ذمی کو زکوٰۃ کی رقم دینے کے بارے میں اختلاف رائے ہے ہمارے اصحاب، سفین ثری ، امام مالک، ابن شبہ اور امام شافعی کا قول ہے کہ ذمی کو زکوٰۃ کی رقم نہیں د ی جاسکتی۔ عبید اللہ بن الحسن کا قول ہے کہ جب زکوٰۃ لینے والا کوئی مسلمان نہ ملے تو ذمی کو زکوٰۃ کی رقم کی یہ رقم دے دے۔ ان سے کہا جائے گا کہ جس جگہ زکوٰۃ دینے والا رہتا ہو وہاں کوئی مسلمان اگر اسے نہ ملے تو دوسری جگہ مسلمان موجود ہوگا گویا ان کا مسلک یہ ہے کہ جو ذمی مسلمانوں کے درمیان رہتا ہو اسے زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ پہلے قول کی دلیل حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے (مرت ان اخذ الصدقۃ من اغنیائکم واردھانی فقراء کم۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے مال داروں سے صدقہ لے کر تمہارے فقراء میں تقسیم کردوں) یہ ارشاد اس امر کا مقتضی ہے کہ امام المسلمین صدقے کی جو رقم بھی وصول کرے اس کی تقسیم مسلمان فقراء تک محدود رکھے۔ اس میں سے کافروں کو دینا جائز نہیں ہے۔ جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے ہوتے ہوئے کافروں کو زکوٰۃ نہیں دی جائے گی تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ زکوٰۃ میں کافروں کے لئے کوئی حصہ نہیں ہے اس لئے کہ اگر ایک حالت میں کافروں کو زکوٰۃ کی رقم حوالہ کرنا جائز ہوتا تو پھر تمام حالتوں میں اس کا جواز ہوتا اس لئے کہ کافروں کے اندر فقر کا وجود اسی طرح ہے جیسے مسلمان فقراء کے اندر۔ کیا زکوٰۃ کی سب رقم ایک شخص کو دینا جائز ہے ؟ ایک ہی شخص کو زکوٰۃ کی ساری رقم دے دینے کے مسئلہ میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ای ہی مسکین کو پوری زکوٰۃ دے دینا جائز ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ہی مسکین میں اپنا اور اپنے اہل و عیال اک صدقہ فطر دے دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ آیت کے مطابق زکوٰۃ کے جو مستحقین ہیں ایک شخص اپنی زکوٰۃ ان میں سے کم از کم تین کو دے گا۔ اگر اس نے ان میں سے دو کو اپنی زکوٰۃ کی پوری رقم دے دی جبکہ تیسرا بھی زکوٰۃ لینے کے لئے موجود تھا تو اس صورت میں وہ تیسرے حصے کا تاوان بھر دے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (انما الصدقات للفقرآء والمساکین) اس چیز کے لئے اسم جنس ہے جو صدقہ کے طور پر دی جارہی ہے اور جنہیں دی جارہی ہے ان کے لئے بھی یہ اسم جنس ہے۔ اسمائے جنس کا جب اطلاق کیا جاتا ہے تو وہ اپنے مدلولات یعنی مسمیات پر دو میں سے ایک صورت میں حکم واجب کردیتے ہیں۔ یا تو تمام پر حکم کا ایجاب ہوجاتا ہے یا کم سے کم پر، اور دلالت کے بغیر کسی خاص عدد کے ساتھ حکم کا اختصاص نہیں ہوتا۔ چونکہ آیت زیر بحث میں کسی خاص عدد کا ذکر نہیں ہے اسی لئے کہ حکم کا اختصاص کسی خاص عدد کے ساتھ نہیں ہوگا۔ قول باری (والسارق والسارق) پر غور کیجئے اسی طرح (الزانیۃ والزانی) پر، نیز (وخلق الانسان ضعیفاً اور انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے) پر بھی غور کیجئے۔ یہ سب اسمائے جنس ہیں ان میں سے ہر ایک کے اپنے مسمی اور مدلول کے ایک ایک فرد کو الگ الگ شامل ہے مجموعی طور پر شامل نہیں ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگ کوئی شخص یہ کہے۔ ” اگر میں عورتوں سے نکاح کردوں یا غلاموں کی خریداری کروں تو …“ تو اس کے اس قول کو ایک عورت یا ایک غلام پر محمول کیا جائے گا۔ اگر اس نے یہ کہا ہو : ” اگر میں پانی پی لوں یا کھانا کھالوں تو… تو اس کے اس قول کو پانی اور طعام کے ایک جز پر محمول کیا جائے گا۔ پانی اور تعام کے تمام مدلول کے احاطہ پر اسے محمول کیا جائے گا۔ اگر اس نے اپنی قسم میں کل جنس کے احاطہ کا ارادہ کیا ہو تو اس کا قول تسلیم کرلیا جائے گا اور وہ کبھی بھی حانث نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ فقرے میں وارد لفظ کا مقتضی دو معنوں میں سے ایک ہے۔ یا تو کل کا احاطہ مقصود ہے یا لفظ کے مدلول کے کم سے کم فرد کا۔ اس جیسے فقرے میں کل مراد لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لئے اس میں عدد کے اعتبار کا بھی کوئی معنی نہیں ہوگا۔ اسم جنس کے متعلق ہم نے درج بالا سطور میں کچھ بیان کیا ہے جب اس کا ثبوت ہوگیا اور دوسری طرف سب کا اس پر اتفاق ہے کہ صدقات کی آیت میں جنس کا اس طرح احاطہ مراد نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی بھی محروم نہ رہے تو اب اس میں عددکا اعتبار ساقط ہوگیا۔ اس بنا پر جن حضرات نے ان میں سے کم از کم کا اعتبار کیا ہے ان کا قول باطل ہوگیا۔ نیز صدقات کسی خاص انسان کا حق نہیں ہے یہ تو صرف اللہ کا حق ہے جسے آیت میں بیان کردہ مصارف میں صرف کیا جاتا ہے اس لئے اس میں ایک فرد اور جماعت کے حکم میں زکوٰۃ حوالہ کرنے کے لحاظ سے فرق نہ ہونا ضروری قرار پایا۔ نیز یہ پہلو موجود ہے کہ اگر عدد کا اعتبار ضروری ہے تو پھر بعض اعداد کا اعتبار بعض دوسرے اعداد کی بہ نسبت اولیٰ نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ آیت میں وارد اسم کسی خاص عدد کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ ایک اور پہلو سے بھی دیکھئے جب عدد کا اعتبار ضروری ٹھہرایا جائے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ تمام اعداد کا احاطہ مشکل ہے۔ اس لئے فقراء و مساکین نیز دیگر مصارف سے تعلق رکھنے والے مستحقین زکوٰۃ کا احاطہ نہیں ہوسکتا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ عدد کا اعتبار ساقط ہوگیا۔ اس لئے کہ عدد کے اعتبار میں ایسی بات موجود ہے جو اس کے اسقاط پر منتج ہوتی ہے۔ کیا تہائی مال کی وصیت، فقراء کے لئے جائز ہے ؟ اگر کوئی شخص اپنا تہائی مال فقراء کے لئے وصیت کرجائے تو اس مسئلے میں امام ابو یوسف اور امام محمد کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ اگر ایک ہی فقیر کو تہائی مال دے دیا جائے تو وصیت پر عملدرآمد ہوجائے گا جبکہ امام محمد کا قول ہے کہ جب تک دو یا اس سے زائد فقراء کو نہیں دیا جائے گا وصیت پر عملدرآمد نہیں ہوگا۔ امام ابو یوسف نے اس صورت کو زکوٰۃ کی صورت کے مشابہ قرار دیا ہے اور قیاس کے لحاظ سے یہ بہتر ہے۔ کیا زکوٰۃ دوسرے شہروں میں تقسیم ہوچکی ہے ؟ زکوٰۃ کس جگہ ادا کی جائے اس بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب یعنی امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ ہر شہر کی زکوٰۃ اسی شہر کے فقراء میں تقسیم کی جائے گی اور دوسرے شہر کے فقراء کے لئے نہیں بھیجی جائے گی۔ لیکن اگر کوئی اپنی زکوٰۃ دوسرے شہر میں لے جاکر تقسیم کردیتا ہے تو اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے لیکن اسے مکروہ سمجھا جائے گا۔ علی الرازی نے ابو سلمان سے، اور انہوں نے ابن المبارک سے، انہوں نے امام ابوحنیفہ (رح) سے روایت کی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک شہر سے دوسرے شہر میں اپنے رشتہ داروں کے لئے زکوٰۃ کی رقم بھیج دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابو سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد سے اس بات کا تذکرہ کیا انہوں نے فرمایا کہ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن ہم نے امام ابوحنیفہ سے ان کا یہ قول نہیں سنا ہے۔ ابو سلیمان مزید کہتے ہیں کہ امام محمد بن الحسن نے اس قول کو لکھ لیا اور ابن المبارک کے واسطے سے امامابو حنیفہ سے اس کی روایت درج کی ہے۔ طحاوی نے ابن ابی عمر سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہمیں ہمارے اصحاب نے محمد بن الحسن سے روایت کی ہے انہوں نے ابو سیلمان سے، انہوں نے عبداللہ بن المبارک سے اور انہوں نے ابوحنیفہ سے کہ کوئی شخص اپنی زکوٰۃ ایک شہر سے دوسرے شہر نہیں لے جائے گا البتہ اگر اس کا کوئی رشتہ دار دوسرے شہر میں رہتا ہو تو ہ اسے وہاں لے جاکر دے سکتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ صدقہ فطر کی ادائیگی اسی جگہ ہوگی جہاں ادا کرنے والا رہتا ہو۔ ایک شخص اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر وہیں ادا کرے گا جہاں وہ ہوں گے اور مال کی زکوٰۃ اسی جگہ ادا کی جائے گی جہاں مال ہوگا۔ امام مالک کا قول ہے کہ مال کی زکوٰۃ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل نہیں کی جائے گی الایہ کہ اپنے شہر میں تقسیم کے بعد اس کا کچھ حصہ بچ رہے تو اس صورت میں بچی ہوئی رقم قریب ترین شہر کی طرف منتقل کرسکتا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر ایک شخص مصر کا ہو اور اس پر زکوٰۃ واجب ہوگئی ہو اس کا مال مصر میں ہو لیکن وہ خود مدینہ میں ہو تو وہ اپنی زکوٰۃ مدینہ میں تقسیم کرے گا اور صدقہ فطر وہیں ادا کرے گا جہاں وہ موجود ہوگا۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ زکوٰۃ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل نہیں کی جائے گی الا یہ کہ شہر میں زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ ملے حسن بن صالح نے ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف زکوٰۃ کی منتقلی کو مکروہ سمجھا ہے۔ لیث ب سعد کا قول ہے کہ اگر ایک شخص پر زکوٰۃ واجب ہوگئی ہو اور وہ کسی اور شہر میں ہو۔ اگر اپنے شہر کی طرف اس کی واپسی جلد ہونے والی ہو تو پھر وہ زکوٰۃ کی ادائیگی کو موخر کردے اور اپنے شہر واپس ہوکر زکوٰۃ ادا کرے۔ اگر اس نے اپنے شہر واپسی سے قبل قیام کی جگہ میں زکوٰۃ ادا کردی تو مجھے امید ہے کہ اس کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ اگر وہ اپنے شہر سے طویل عرصے کے لئے چلا گیا ہو تو جس جگہ اس نے قیام کا ارادہ کرلیا ہو اپنی زکوٰۃ اسی جگہ نکالے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر ایک شخص اپنی زکوٰۃ دوسرے شہر میں لے جائے تو میرے سامنے یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ آیا اس پر اعادہ لازم ہوگا۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر قول باری (انما الم صدقات للفقرآء والمساکین) اس امر کے جواز کا مقتضی ہے کہ جس شہر میں زکوٰۃ دینے والے کا مال ہو وہ اس کے علاوہ دوسرے شہر میں بھی زکوٰۃ کی رقم فقراء و مساکین کو دے سکتا ہے۔ نیز جس جگہ بھی چاہے جاکر زکوٰۃ ادا کرسکتا ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ وہ جس جگہ بھی زکوٰۃ ادا کرے گا اس کی ادائیگی ہوجائے گی۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ ہمیں اصول شریعت میں ایسا کوئی صدقہ نظر نہیں آیا جو کسی خاص جگہ کے ساتھ اس طرح مخصوص ہو کہ پھر کسی اور جگہ اس کی ادائیگی جائز نہ ہوتی ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قسموں اور نذروں کے کفارات نیز دوسرے تمام صدقات کی ادائیگی کا جواز کسی ایک جگہ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ طائوس سے مروی ہے کہ حضرت معاذ ؓ نے اہل یمن سے کہا تھا کہ میرے پا کپڑے اور نیزے لے آئو میں تم سے صدقہ میں مکئی اور جو جگہ یہ چیزیں قبول کرلوں گا۔ تمہارے لئے ان کی ادائیگی آسان ہے اور مدینہ کے مہاجرین و انصار کے لئے یہ زیادہ کارآمد ہیں۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت معاذ ؓ صدقات کو یمن سے مدینہ منورہ منتقل کردیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اہل یمن کی بہ نسبت اہل مدینہ کو ان چیزوں کی زیادہ ضرورت تھی۔ حضرت عدی ؓ بن حاتم نے روایت کی ہے کہ انہوں نے بنی طے کے صدقات حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچائے تھے حالانکہ بنی طے کا علاقہ مدینہ منورہ سے بہت فاصلے پر ہے۔ نیز حضرت عدی بن حاتم اور زبر قان بن بدر نے اپنے اپن قبیلے کے صدات حضر ابوبکر ؓ کے پاس پہنچائے تھے اول الذکر بنی طی کے علاقے سے اور موخر الذکر نے بنی تمیم کے علاقے سے، حضرت ابوبکر ؓ نے ان صدقات سے مرتدین کے خلاف جنگی کارروائیوں کے سلسلے میں بڑا کام لیا تھا۔ ہمارے اصحاب نے صدقات کو اپنے شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کو اس صورت میں مکروہ سمجھا ہے جب دونوں شہر کے ضرورت مندوں کی ضرورتیں یکساں ہوں۔ ان کی دلیل حضور ﷺ سے مروی وہ حدیث ہے جس میں ذکر ہے کہ جب آپ ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو یمن کی طرف روانہ کیا تو انہیں یہ ہدایات دیں : ” اہل یمن کو بتائو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال میں ان پر ایک حق فرض کیا ہے۔ یہ حق ان کے مال داروں سے وصول کیا جائے گا اور ان کے فقراء میں تقسیم کردیا جائے گا۔ “ یہ روایات اس امر کی مقتضی ہے کہ جن لوگوں سے زکوٰۃ وصول کی جائے اسے ان کے درمیان موجود فقراء میں تقسیم کردیا جائے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر زکوٰۃ دینے والے کا کوئی غریب رشتہ دار کسی اور شہر میں رہتا ہو تو وہ اپنے شہر سے اس کے پاس زکوٰۃ کی رقم بھیج سکتا ہے۔ اما ابوحنیفہ کا یہ قول اس حدیث کی بنا پر ہے جسے ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی۔ انہیں علی بن محمد نے، انہیں ابو سلمہ نے، انہیں حماد بن سلمہ نے ایوب اور ہشام نیز حبیب سے، انہوں نے ابن سیرین سے، انہوں نے سلیمان ؓ بن عامر سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (صدقۃ الرجل علی قرابتہ صدقۃ وصلۃ، انسان کا اپنے رشتہ داروں پر صدقہ ادا کردینا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں موسیٰ بنی زکریا نے، انہیں احمد بن منصور نے، انہیں عثمان بن صالح نے، انہیں ابن لہیعہ نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے، انہوں نے حضرت عمر ؓ سے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے صدقہ کے متعلق دریافت کیا تھا جس کے جواب میں آپ نے فرمایا تھا (ان الصدقۃ علی ذی القرابۃ تضاعف مرتین، رشتہ دار کو صدقہ دینے کا اجر دوگنا ہوتا ہے) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی بیوی زینب ؓ نے جب حضور ﷺ سے استفسار یا تھا کہ آیا وہ اپنا صقہ اپنے شوہر اور اپنے یتیم بھتیجوں کو دے سکتی ہیں جو ان کی پرورش میں تھے تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا تھا (لک اجران اجر الصدقۃ واجر القرابۃ۔ تمہیں دو اجر ملیں گے ایک تو صدقے کا اجر اور دوسرا قرابتداری کا اجر) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں علی بن الحسین بن یزید الصدائی نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں ابن نمیر نے حجاج سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے ایوب بن بشیر سے، انہوں نے حکیم ؓ بن حزام سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا : ” اللہ کے رسول ! کونسا صدقہ سب سے افضل ہے ؟ “ آپ ﷺ نے فرمایا (علی ذی الرحم الکاشح) دشمنی رکھنے والے رشتہ دار کو دیا جانے والا صدقہ) ان روایات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ محرم رشتہ داروں کو صدقہ دینا خواہ اس کے قیام کی جگہ کتنی دور کیوں نہ ہو، اجنبی اور غیر رشتہ کو دینے سے افضل ہے۔ اسی بنا پر امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر رشتہ دار کو دینا مقصود ہو تو پھر اپنے شہر سے دوسرے شہر کی طرف منتقل کردینا جائز ہوگا۔ ہمارے اصحاب کا یہ قول ہے کہ صدقہ فطر کی ادائیگی اسی جگہ ہوگی جہاں صدقہ دینے والا موجود ہوگا اور غلاموں اور نابالغ اولاد کی طرف سے ادائیگی اس جگہ ہوگی جہاں وہ ہوں گے اس لئے کہ صدقہ فطر ان کی طرف سے ادا کیا جائے گا۔ اس لئے جس طرح مال کی زکوٰۃ اسی جگہ ادا کی جاتی ہے جس جگہ مال ہوتا ہے۔ اسی طرح صدقہ فطر وہیں ادا کیا جائے گا جہاں وہ افراد ہوں گے جن کی طرف سے یہ ادا کیا جارہا ہے۔ زکوٰۃ کی اس مقدار کا بیان جو ایک مسکین کو دی جائے امام ابوحنیفہ ایک مسکین کو دو سو درہم زکوٰۃ میں دے دینا مکروہ سمجھتے تھے لیکن ان کا یہ بھی قول ہے کہ اگر تم نے کسی کو زکوٰۃ کی یہ رقم دے دی تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ البتہ دو سو سے کم رقم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ اگر اتنی رقم دے دی جائے جسے پاکر ایک انسان اپنی ضروریات پوری کرے اور سوال سے مستغنی ہوجائے تو یہ بات میرے لئے زیادہ پسندیدہ ہوگی۔ ہشام نے امام ابو یوسف سے روایت کی ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس ایک سو ننانوے درہم ہوں پھر اسے کسی نے دو درہم زکوٰۃ کے طور پردے دیئے تو اسے چاہیے کہ صرف ایک درہم قبول کرے اور ایک درہم واپس کردے۔ اس طرح امام ابو یوسف نے ایک شخص کے لئے زکوٰۃ کی اتنی رقم قبول کرلینے کی اجازت دے دی جس کے ساتھ دو سو درہم پورے ہوجائیں۔ انہوں نے اس سے زائد رقم قبول کرنے کو مکروہ سمجھا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اس معاملے کا دارو مدار اپنی سمجھ بوجھ اور رائے پر ہے۔ اس میں شریعت کی طرف سے کوئی رہنمائی نہیں ہے۔ اس بارے میں ابن شرمہ کا قول امام ابوحنیفہ کے قول کی طرح ہے۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ ایک شخص کو زکوٰۃ کی رقم سے پچاس درہم سے زائد نہیں دیئے جائیں گے الا یہ کہ وہ مقروض ہو اس صورت میں اسے اس سے زائد رقم بھی دی جاسکتی ہے۔ حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے ۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ اسے اتنی رقم دی جائے گی کہ عیالدار ہونے کی صورت میں وہ اپنے لئے کوئی غلام خرید سکے۔ بشرطیکہ زکوٰۃ کی مقدار بہت زیادہ ہو۔ امام شافعی نے اس کی کوئی حد بندی نہیں کی ہے۔ ان کے نزدیک زکوٰۃ کی اتنی رقم دے دینی چاہیے جس کے ذریعے اس کی ضروریات پوری ہوجائیں۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (انما الصدقات للفقرآء والمساکین) میں اس مقدار کی تجدید نہیں ہے جو مستحقین زکوٰۃ میں سے ہر ایک کو دی جائے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ آیت میں یہ مراد نہیں ہے کہ مستحقین کی تعداد کے مطابق فی کس کے حساب سے زکوٰۃ ان میں بانٹ دی جائے اس لئے کہ ایسا کرنا مشکل بلکہ ممتنع ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس سے مستحقین میں سے بعض کو دینا مراد ہے خواہ بعض کی کوئی بھی صورت ہوجائے۔ بعض کی کم سے کم مقدار ایک کا عدد ہے۔ دوسری طرف ہمیں یہ معلوم ہے کہ اموال کے مالکان میں سے ہر ایک شخص کو آیت میں مخاطب بنایا گیا ہے۔ جو اس بات کا مقتضی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے لئے اپنی ساری زکوٰۃ ایک فقیر کو دے دینا جائز ہے خواہ زکوٰۃ کی رقم تھوڑی ہو یا زیادہ۔ اس لئے ظاہر آیت کی بنا پر زکوٰۃ کی بڑی رقم صرف ایک فقیر ک دے دینے کا جواز پیدا ہوگیا اس میں تعداد کی کوئی تحدید نہیں ہے۔ نیز چونکہ فقیر کو زکوٰۃ کی رقم حوالے کرنا اور اس کا اسے مالک بنادینا ان دونوں کا وقوع اس وقت ہوتا ہے جب وہ ابھی فقیر ہوتا ہے اس لئے قلیل اور کثیر رقم حوالے کرنے میں کوئی فرق نہیں ہوگا اس لئے کہ دونوں حالتوں میں فقیر کو اس رقم کی ملکیت حاصل ہوجاتی ہے۔ امام ابوحنیفہ نے ایک شخص کو زکوٰۃ میں دو سو درہم کی رقم دینے کو اس بنا پر مکروہ سمجھا ہے کہ یہ رقم زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے مکمل نصاب ہے۔ اس بنا پر لینے والا شخص زکوٰۃ کی ملکیت مکمل ہوتے ہی غنی بن جائے گا۔ حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کی رقمیں فقراء کو دینے کا حکم دیا ہے تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھائیں اور ان کو اپنی ملکیت میں لیں۔ زیر بحث صورت میں ایک فقیر کو جب زکوٰۃ کی رقم سے فائدہ اٹھانے کی قدرت حاصل ہوجائے گی تو اس وقت وہ فقیر نہیں ہوگا بلکہ غنی ہوچکا ہوگا اور یہ بات آیت کی منشا کے خلاف ہے اس لئے امام ابوحنیفہ نے فقیر کو ایک مکمل نصاب کی مقدار زکوٰۃ کی رقم حوالے کرنے کو مکروہ سمجھا ہے۔ لیکن جب اسے نصاب سے کم مقدار دی جائے گی تو وہ اس کا جب مالک ہوگا اور اس سے فائدہ اٹھائے گا اس وقت وہ فقیرہوگا۔ اس بنا پر امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ صورت مکروہ نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ جب وہ صاحب نصاب نہ ہونے کی بنا پر غنی نہیں بنے گا تو اسے زکوٰۃ کی تھوڑی رقم یا زیادہ رقم دینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ دونوں صورتیں اس کے لئے یکساں ہوں گی۔ پس نملیک واقع ہونے اور زکوٰۃ سے فائدہ اٹھانے پر قدرت حاصل ہونے کے وقت اس شخص کے صاحب نصاب ہونے کا اعتبار ہوگا۔ امام ابوحنیفہ کا یہ قول کہ ” زکوٰۃ کی رقم کے ذریعے کسی کو غنی بنادینا میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔ “ اس سے ان کی مراد وہ دولتمندی نہیں ہے جس کی بنا پر زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ فقیر کو زکوٰۃ کی اتنی رقم دے دی جائے کہ وہ دست سوال دراز کرنے سے مستغنی ہوجائے اور اس کی جائز ضروریات پوری ہوجائیں نیز اس کا چہرہ سوال کرنے کی ذلت سے بچ جائے۔ لاعلمی میں غیر مستحق کو زکوٰۃ دینا جائز ہے اگر کسی شخص کو اس کی ظاہری حالت سے فقیر سمجھتے ہوئے زکوٰۃ کی رقم دے دی جائے اور پتہ چل کہ وہ غنی تھا تو آیا زکوٰۃ ادا ہوجائے گی یا نہیں ؟ اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام محمد کا قول ہے کہ زکوٰ ۃ ادا ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر کسی نے لاعلمی میں اپنے بٹے یا ذمی کو زکوٰۃ دے دی پھر اسے اس کا علم ہوگیا تو اس کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ امام ابوحنیفہ نے یہ مسلک اس حدیث کی بنا پر اختیار کیا ہے جس کے روی معن بن یزید ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے رات کے وقت لاعلمی میں زکوٰۃ کی رقم مجھے دے دی۔ جب صبح ہوئی اور اصل صورت حال کا پتہ چلا تو میرے والد نے کہا کہ میں نے تو تمہیں یہ رقم دینے کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ پھر دونوں حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور سارا واقعہ آپ سے بیان کیا۔ آپ نے حضرت یزید سے فرمایا (لک مانویت یا یزید، یزید ! تم نے جس چیز کا ارادہ کیا تھا اس کا ثواب تمہیں مل جائے گا) اور حضرت سے فرمایا (لک مااخذت، تم نے جو لے لیا وہ تمہارا ہے) آپ ﷺ نے باپ سے یہ نہیں پوچھا کہ آیا انہوں نے زکوٰۃ کی نیت کی تھی یا کسی اور صدقہ کی ، بلکہ ان سے یہ فرمایا (لک مانویت) یہ بات دیئے ہوئے مال کے جواز پر دلالت کرتی ہے خواہ انہوں نے زکوٰۃ کی نیت ہی کیوں نہ کی ہو۔ نیز ایسے لوگوں کو صدقہ دینا ضرورت کی حالت کے بغیر ایک صورت کے اندر صدقے کی درست شکل ہوتی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ انہیں نفلی صدقہ دیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کی مشابہت کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرنے کے ساتھ ہوگئی جبکہ ایک شخص درست طریقے سے سوچ بچار اور غور و فکر کے بعد ایک سمت کو کعبے کی سمت سمجھ کر نمازادا کرلے، نماز پڑھ لینے کے بعد اسے پتہ چل جائے کہ اس کا رخ کعبے کی طرف نہیں تھا تو اس صورت میں اس کی نمز ادا ہوجائے گی کیونکہ کعبہ کی سمت کے بغیر کسی اور جہت کی طرف رخ کرکے ایک صورت میں نماز ضرورت کی حالت کے بغیر بھی درست ہوجاتی ہے۔ یہ صورت وہ ہے جب انسان سواری پر نفل نماز ادا کررہا ہو۔ اس صورت میں قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ جس طرف سواری کے جانور کا رخ ہو اسی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا چلا جائے۔ اس طرح اپنے اجتہاد سے کام لے کر کسی کو زکوٰۃ کی رقم دے دینا اپنی رائے اور سمجھ کے مطابق کعبہ کی سمت منہ کرکے نماز پڑھنے کے مشابہ ہوگیا۔ ایک اعتراض کا جواب اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ زیر بحث مسئلہ، زکوٰۃ اس شخص کی صورت حال کے مشابہ ہے جس نے ایسے پانی سے وضو کرلیا جسے وہ پاک سمجھ رہا تھا بعد میں اسے پتہ کہ یہ پانی ناپاک تھا، اس صورت میں اس کی نماز درست نہیں ہوگی اس لئے کہ پانی کی ناپاکی کا علم ہوجانے کے بعد وہ اپنے اجتہاد کی حد سے نکل کر یقین کی حد کو پہنچ جاتا ہے جس کی بنا پر اس کا اجتہاد باطل ہوجاتا ہے اور نماز کا اعادہ لازم ہوجاتا ہے اسی طرح اپنے بیٹے یا ذمی کو یا کسی مال دار کو زکوٰۃ کی رقم دینے والا علم ہوجانے کے بعد اجتہاد کی حد سے نکل کر یقین کی حد کو پہنچ جاتا ہے جس کی بنا پر اس کا اجتہاد باطل ہوجاتا ہے۔ اور اس کا زکوٰۃ کا اعادہع واجب ہوجاتا ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے، اس لئے کہ ناپاک پانی سے وضو کسی حالت میں بھی طہارت نہیں کہلاتا۔ اس لئے اس کے جواز میں اجتہاد کا کوئی اثر نہیں ہوگا جبکہ کئی حالتوں میں ترک قبلہ جائز ہوتا ہے اس لئے ہمارا زیر بحث مسئلہ ہمارے ذکر کردہ مسئلہ کے ساتھ زیادہ مشابہ ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ نماز ایک حالت کے اندر ناپاک کپڑوں میں بھی ہوجاتی ہے لیکن اس کے باوجود اگر ایک شخص ایک کپڑے کی طہارت کے متعلق اپنی رائے اور اجتہاد سے کام لیتے ہوئے اس میں نماز ادا کرے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ کپڑا ناپاک تھا تو اس صورت میں اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ اور اس پر اعادہ واجب ہوجائے گا۔ اسی طرح ناپاک کپڑے میں ایک حالت کے اندر نماز کا جواز اجتہاد رائے کی بنا پر نماز کے جواز کا موجب نہیں بنا جب نجاست کے متعلق علم ہونے کی وجہ سے وہ اجتہاد کی حد سے نکل کر یقین کی حد کو پہنچ گیا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ دراصل معترض کی نظروں سے ہماری تعلیل اوجھل ہے۔ اس لئے کہ ہم نے یہ کہا ہے کہ ضرورت کے بغیر بھی ترک قبلہ جائز ہے جس طرح ضرورت کے بغیر نفلی صدقہ اپنے بیٹے یا ذمی یا غنی کو دے دینا جائز ہے، اس جہت سے یہ دونوں باتیں یکساں ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ سواری پر بیٹھے ہوئے انسان کو نفل نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی جس طرح نفلی صدقہ دینے والے کو مذکورہ بالا لوگوں کو صدقہ دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب یہ دونوں باتیں اس جہت سے یکساں ہیں تو حکم کے اندر یہ ایک دوسری کے مشابہ ہوجائیں گی۔ رہ گئی ناپاک کپڑے میں نماز کی ادائیگی تو وہ صرف ضرورت کی حالت میں جائز ہوتی ہے۔ کسی اور حالت میں جائز نہیں ہوتی اور اس میں نفل پڑھنے والے اور فرض پڑھنے والے کا حکم یکساں ہوتا ہے اس لئے معترض کی بیان کردہ یہ صورت زیر بحث صورت سے مختلف ہوگئی۔ ایک صنف کو صدقات حوالے کردینے کا بیان قول باری ہے (انما الصدقات للفقرآء والمساکین) تا آخر آیت، ابودائود الطیاسی نے روایت بیان کی ہے۔ انہیں اشعث بن سعید نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ سے کہ اگر ایک شخص آیت میں مذکورہ آٹھ اصناف میں سے صرف ایک صنف کو اپنی زکوٰۃ دے دے تو اس کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت حذیفہ ؓ ، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی، حضرت عمر بن عبدالعزیز اور ابو العالیہ سے اسی طرح کی روایت ہے۔ صحابہ کرام سے اس کے خلاف کوئی روایت نہیں ہے۔ اس طرح گویا اس مسئلے پر سلف کا اجماع ہوگیا جس کے بعد کسی کو بھی اس سے اختلاف کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی اس لئے کہ اجماع کے بعد اس مسئلے کی پوری طرح وضاحت ہوگئی، سلف سے اس کی بکثرت روایت ہوئی اور سلف کے ہم پایہ حضرات سے اس کے خلاف کوئی روایت منقول نہیں ہوئی۔ سفیان ثوری نے ابراہیم بن میسرہ سے، انہوں نے طائوس سے اور انہوں نے حضرت معاذ ؓ بن جبل سے روایت کی ہے کہ وہ اہل ایمان سے زکوٰۃ میں عروض یعنی چیزیں لیا کرتے اور ایک ہی صنف میں انہیں تقسیم کردیتے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، زفر اور امام مالک بن انس کا یہی قول ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ زکوٰۃ آیت میں مذکورہ آٹھوں اصناف کے درمیان تقسیم کی جائے گی، البتہ اگر ایک صنف نہ ملے تو باقی اصناف میں تقسیم کردی جائے گی۔ اس کے سوا اور کسی صورت میں زکوٰۃ کی ادائیگی جائز نہیں ہوگی۔ امام شافعی کا یہ قول سلف کے ان حضرات کے قول کے خلاف ہے جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ نیز آثار و سنن اور ظاہر کتاب اللہ کے بھی خلاف ہے۔ ارشاد باری ہے (ان تبدو الصدقات فنعماھی وان تخفوھا وتوتوھا الفقرآء فھو خیرلکم، اگر اپنے صدقات علانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر حاجتمندوں کو دو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے) اس میں صدقات کی تمام صورتوں کے لئے عموم ہے اس لئے کہ صدقات کے لفظ پر الف لام کے دخول کی وجہ سے یہ اسم جنس بن گیا ۔ اس بنا پر آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ آیت صدقات میں مذکورہ اصناف میں سے صرف ایک صفت یعنی فقراء کو تمام صدقات دے دیئے جائیں ۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ آیت صدقات میں اصناف کے ذکر سے اللہ کی مراد اسباب فقر کا بیان ہے ۔ یہ مراد نہیں ہے کہ صدقات کی تقسیم ان اصناف پر کردی جائے ۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے وفی امولھم حق معلوم للسائل والمحرم ان کے اموال میں سائل اور محروم کے لیے متعین حق ہے یہ آیت صف ان دو اصناف کو صدقات حوالے کردینے کے جواز کی مقتضی ہے اور یہ چیز آٹھواں اصناف پر صدقات کی تقسیم کے جوب کی نفی کرتی ہے، نیزقول باری انما الصدقات للفقراء میں تمام صدقات کے لیے نیز ہر زمانے میں حاصل ہونے والے صدقات کے لیے عموم ہے اور قول باری للفقراء تا آخر آیت میں بھی مذکورہ لوگوں میں سے اس وقت موجود اور بعد میں آنے والوں کے لیے عموم ہے۔ اب یہ بات تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدقہ کی صورت میں حاصل ہونے والی تمام چیزوں کی ، اب وقت موجودلوگوں اور بعد میں پیدا ہونے والوں کے درمیان تقسیم مراد نہیں ہے اس لیے کہ قیامت تک اس تقسیم کا امکان محال ہے ۔ اس لیے یہ بات واجب ہوگئی کہ اگر ایک سال ایک صنف کو ، دوسرے سال کسی اور صنف کو ، اسی سال ہر سال کسی ایک صنف کو امام المسلمین اپنی صوابدید کے مطابق صدقات دے دے تو زکوٰۃ کی ادائیگی ہوجائے گی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک سال کے صدقات یا ایک شخص کا صدقہ آٹھواں اصناف پر تقسیم نہیں ہوگا ، نیز اس امر میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ فقراء ان صدقات کے مشترکہ طور پر مستحق نہیں ہوتے۔ ایک شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ ان میں سے کچھ کو دے دے اور کچھ کو محروم رکھے اس سے یہ ثابت ثابت ہوگئی کہ صدقات کو آیت مذکورہ اصناف میں سے بعض کے اندر صرف کرنا مقصود ہوتا ہے اس لیے مذکورہ اصناف میں سے بعض کو دینے کا جواز ضروری اور واجب ہوگیا جس طرح فقراء میں سے بعض کو دیناجائز ہے۔ ا س لیے کہ اگر صدقات میں تمام حق ہوتا تو اس صورت میں بعض کو دے دینا اور بعض کو محروم رکھنا جائز نہ ہوتا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے۔ جس میں ذکر ہے کہ حضرت سلمہ بن صخر نے جب اپنی بیوی سے ظہار کرلیا اور کفارہ کے طور پر مساکین کو کھلانے کے لیے کوئی بندوبست نہ ہوسکا تو حضور ﷺ نے انہیں بنی زریق سے صدقات وصول کرنے والے کے پاس جانے کے لیے کہا تا کہ ان سے صدقات کی رقم لے کر کفارہ میں مساکین کے طعام کا انتظام کرسکیں۔ حضور ﷺ نے بنی زریق کے صدقات کو حضر ت سلمہ ؓ کے حوالے کردینے کی اجازت دے دی حالانکہ یہ صرف ایک ہی صنف تھے۔ اسی طرح عبید اللہ بن عدی بن الخیار کی روایت میں ذکر ہے کہ دو آدمیوں نے حضور ﷺ سے صدقہ مانگا آپ نے انہیں تندرست و توانا اور مضبوط جسموں والے پا کر فرمایا اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں ۔ آپ نے ان دونوں سے یہ نہیں پوچھا کہ ان کا کس صنف سے تعلق ہے تا کہ ان دونوں کا اسی صنف سے شمار ہوجاتا۔ صدقات کا استحقاق فقر کی بنا پر ہوتا ہے۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ قول دلالت کرتا ہے امرت ن اخذ الصدقۃ میں اغیب کم واردھا فی فقراء کم مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے دولت مندوں سے صدقات وصول کر کے تمہارے فقراء کی طرف لوٹا دوں ۔ آپ ؐ نے حضرت معاذ ؓ کو یمن روانہ کرتے وقت انہیں یہ ہدایت دی تھی ۔ اہل یمن کو یہ بتلا دینا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال میں ایک حق فرض کردیا ہے یہ حق ان کے دولت مندوں سے وصول کیا جائے گا اور ان کے فقراء کی طرف لوٹا دیا جائے گا ۔ آپ نے بتادیا کہ جس سبب کی بنیاد پر تمام اصناف صدقات کے مستحق ہوتے ہیں وہ فقر اور تنگ دستی ہے اس لیے کہ یہ سبب تمام صدقات کو عام ہے۔ پھر آپ نے یہ خبر دی کہ صدقات کو فقراء پر صرف کیا جائے گا یہ لفظ اور اس کے ضمن میں موجود دلالت دونوں اس امر پر دال ہیں کہ جس سبب کی بنیاد پر صدقات کا استحقاق ہوتا ہے وہ فقر ہے ، نیز یہ کہ اس کا عموم تمام صدقات کو فقراء میں تقسیم کردینے کے جواز کا مقتضی ہے یہاں تک کہ فقراء کے سوا کسی اور کو کچھ نہ دیا جائے بلکہ حدیث کا ظاہر لفظ اس کے ایجاب کا مقتضی ہے اس لیے کہ آپ نے فرمایا ہے امرت مجھے حکم دیا گیا ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ صدقات وصول کرنے والا ان کا مستحق ہوتا ہے لیکن اس میں فقر کا سبب نہیں پایا جاتا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ عاملین صدقات جو رقمیں لیتے ہیں وہ صدقہ کے طور پر نہیں لیتے۔ بلکہ صدقات کی وصولی فقراء کے لیے ہوتی ہے پھر وصولی کا کام کرنے والا یعنی عامل ان صدقات میں سے اپنے عمل اور کام کا معاوضہ وصول کرتا ہے ، صدقہ وصول نہیں کرتا ۔ جس طرح کسی فقیر کو کوئی رقم بطور صدقہ دے دی جائے اور وہ فقیر کسی سے اپنا کام کرائے اور یہی رقم اسے مزدوری اور معاوضہ میں دے دے یا جس طرح بریرہ ؓ کو بطور صدقہ کوئی چیز دی جاتی اور وہ اسے حضور ﷺ کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر بھیج دیتیں۔ اس طرح وہ چیز بریزہ ؓ کے لیے صدقہ ہوتی اور حضور ﷺ کے لیے ہدیہ۔ اگر یہ کہا جائے کہ مؤلفہ القلوب صدقات کی رقمیں صدقہ کے طور پر لیتے تھے حالانکہ ان کے اندر آپ کا مذکورہ بالا سبب یعنی فقر نہیں پایا جاتا تھا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مؤلفۃ القلوب صدقہ کے طور پر رقمیں اور اجناس نہیں لیتے تھے بلکہ صدقات فقراء کے لیے جمع کیے جاتے اور ان کا ایک حصہ مولفۃ القلوب کو دے دیا جاتا تاکہ فقراء مسلمین کو ان کی ایذا رسانی سے بچایا جاسکے اور تا کہ یہ مسلمان ہوکر مسلمانوں کے لیے طاقت و قوت کا ذریعہ بن سکیں ۔ اس طرح مؤلفۃ القلوب صدقات کی رقمیں اور اجناس وغیرہ صدقہ کے طور پر نہیں لیتے تھے، بلکہ صدقات کی وصولی کے بعد انہیں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں صرف کیا جاتا اس لیے کہ فقراء کے مال کا کچھ حصہ ان کی فلاح و بہبود کے کاموں میں لگا دینا جائز ہے۔ اس لیے کہ امام المسلمین ان سب کا ولی ہوتا ہے اور ان کی فلاح و بہبود کی خاطر ان کے ہاں میں تصرف کرتا ہے۔ آیت صدقات میں اصناف کا ذکر صرف فقر کے اسباب کے بیان کی خاطرہوا ہے جیسا کہ ہم پہلے واضح کرچکے ہیں ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مقروض اور ابن السبیل یعنی مسافر اور غازی حاجت مندی اور فقر کی بنا پر ان صدقات کے مستحق ہوتے ہیں ، ان دو اسباب کے سوا ان کے استحقاق کا اور کوئی سبب نہیں ہے۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ جس سبب کی بنا پر مذکورہ اصناف صدقات کے مستحق قرار پاتے ہیں ہ فقر اور حاجت مندی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ عبد الرحمن بن زیاد بن نعم نے زیاد بن نعیم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے زیاد بن الحارث الصدائی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے حضور ﷺ نے کسی قوم پر مامور کیا ، میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے انکے صدقات میں سے کچھ حصہ دیجئے ۔ آپ ﷺ نے میری استدعا قبول کرتے ہوئے اس سلسلے میں ایک تحریر بھی عطا کی ۔ ایک اور شخص آپ کے پاس آیا اور آپ سے صدقے کی درخواست کی ۔ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا : اللہ تعالیٰ کسی نبی یا غیر نبی کے فیصلے پر راضی نہیں ہوا بلکہ صدقات کے بارے میں آسمان سے خود فیصلہ نازل فرمایا اور صدقات کی آٹھ مدین قائم کردیں ، اگر تم بھی ان میں سے کسی مد کے تحت آتے ہو تو میں تمہیں بھی دے دوں گا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حدیث ہمارے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے ۔ اس لیے کہ آپ نے فرمایا تھا اگر تم بھی ان میں سے کسی مد کے تحت آتے ہو تو میں تمہیں بھی دے دوں گا ۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ صدقات پر صرف ان لوگوں کا استحقاق ہوتا ہے جو ان مدات کے تحت آتے ہیں ۔ اس روایت میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے زیاد بن الحارث الصدائی کے لیے اس کی قوم سے وصول ہونے والے صدقہ کا کچھ حصہ لکھ دیا اور آپ نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ ان کا تعلق کس صنف سے ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صدقات کی آٹھ مدیں مقرر کی ہیں ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ ایسا اس لیے کیا گیا ہے تا کہ امام المسلمین اگر مناسب سمجھے تو صدقات کی تمام رقمیں ان میں سے کسی ایک مد میں لگا دے لیکن ان مدات سے باہر کوئی خرچ نہ کرے۔ ایک اور پہلو سے غور کیجئے صدقہ کا استحقاق یا تو نام کی بنا پر ہوتا ہے یا حاجت مند کی بنا پر یا دونوں کی بنا پر اب یہ کہنا تو غلط اور فاسد ہے کہ اس کا استحقا ق صرف اس اسم کی بنا پر ہوتا ہے ۔ اس کی دو وجہیں ہیں ۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس سے پھر ہر مقروض اور ہر مسافر کو صدقہ لینے کا حق ہوجائے گا خواہ وہ مال دار کیوں نہ ہو اور ظاہر ہے کہ یہ بات سرے سے غلط ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے پھر یہ ضروری ہوجاتا کہ جس شخص کے اندر فقر اور مسافرت دونوں کا اجتماع ہوجاتا وہ دو حصوں کا مستحق ہوجاتا ، حالانکہ یہ بات بھی غلط ہے جب ان دونوں وجوہ کا بطلان ہوگیا تو اس سے تیسری بات درست ہوگئی وہ یہ کہ صدقہ کا استحقاق حاجت مندی اور فقر کی بناپر ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری انما الصدقات للفقراء والمساکین تا آخر آیت ، اشتراک کا مقتضی ہے اس لیے کسی ایک صنف کو خارج کرنا جائز نہیں ہوگا جس طرح کوئی شخص اپنے تہائی مال کی زید ، عمرو اور بکر کے نام وصیت کر جائے تو اب ان تینوں میں کسی ایک کو محروم رکھنا جائز نہیں ہوگا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تمام صدقات میں لفظ مقتضی یہی ہے اور ہم بھی اس کے قائل ہیں ۔ اس لیے امام ایک سال کا صدقہ ایک صنف کو دے دے اور دوسرے سال کا صدقہ دوسری کو ، جس طرح اس کی صوابدید ہو اور جس میں اسے مصلحت نظرآئے اسی کے مطابق وہ اقدام کرے۔ ہمارے اور معترضین یعنی شوافع کے درمیان اختلاف جس نکتے پر ہے وہ ایک صدقہ کے متعلق ہے کہ آیا تمام اصناف اس ایک صدقہ کے مستحق ہوں گے۔ آیت میں ایک صدقہ کا حکم بیان نہیں ہوا بلکہ اس میں صدقات کا حکم بیان ہوا ہے۔ اگر ہم اس کے مطابق تمام صدقات کی اس طرح تقسیم کرلیں جس طرح اوپر بیان ہوا تو ہم آیت کے مقتضی سے عہد ہ برآ ہوجائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ جن آیات و آثار نیز اقوال سلف کا ہم نے اوپر حوالہ دیا ہے۔ ان سب پر عمل ہوجائے گا ۔ یہ بات ایک صدقہ کی آٹھ اصناف پر تقسیم کو واجب کرنے ، نیز دوسری آیات و سنن کے احکام کو ٹھکرا دینے سے بہتر اور اولیٰ ہے۔ اس مفہوم کی بنیاد پر صدقات کا مسئلہ تہائی مال کی وصیت کے مسئلے جدا ہوگیا ۔ اس لیے کہ وصیت متعین اشخاص کے لیے ہوتی ہے نیز ان کی تعدا د بھی محدود ہوتی ہے دوسری طرف ایک متعین مال میں تہائی بھی متعین ہوتا ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ جن متعین لوگوں کے لیے وصیت کی گئی ہے وہ مشترکہ طور پر اس وصیت کے مستحق قرار پائیں ۔ اس میں ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ صدقات کا استحقاق تمام مستحقین کے لیے مشترکہ طور پر نہیں ہوتا کیونکہ تمام حضرات متفقہ طور پر اس بات کے قائل ہیں کہ اگر صدقات بعض فقراء کو دے دیے جائیں اور بعض کو ان سے محروم رکھا جائے تو یہ جائز ہے جبکہ اس کے برعکس جن لوگوں کے لیے وصیت کی گئی ہو ان میں سے کسی ایک کو بھی وصیت سے خارج کردینا جائز نہیں ہے ۔ ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ صدقات میں بعض کو بعض سے زائد دے دینا جائز ہے لیکن یہ بات وصیت مطلقہ کی صورت میں جائز نہیں ہے۔ اسی طرح بعض اصناف کو محروم رکھنا بھی جائز ہے جس طرح بعض فقراء کو محروم رکھناجائز ہے ، اس جہت سے صدقات کا مسئلہ تہائی مال کی وصیت کے مسئلہ سے جدا ہوگیا ۔ ایک اور پہلو سے اسے دیکھے ، صدقہ اللہ کا حق ہے کسی آدمی کا حق نہیں جس کی دلیل یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنی ذات کے لیے اس کے استحقاق کا مطالبہ نہیں کرسکتا ، اس بنا پر صدقہ دینے والا جس صنف میں اس صدقے کو صرف کر دے گا وہ اسے درست مصرف میں خرچ کرنے والا قرار پائے گا ۔ اس کے برعکس متعین اشخاص کے لیے کی جانے والی وصیت پر آدمی کا حق ہوتا ہے ، ان متعین آدمیوں کے سوا کوئی دوسرا شخص اس کا مطالبہ نہیں کرسکتا اس لیے وصیت کے لیے نامزد تمام آدمی اس وصیت کے حق دار قرار پائیں گے اور اس حق کی وہی حیثیت ہوگی جو انسانوں کے دوسرے تمام حقوق کی ہوتی ہے ۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفارہ میں مساکین کو کھانا کھلانا واجب قرار دیا ہے۔ لیکن اگر وہ فقراء کو دے دے تو بھی جائز ہے۔ اسی طرح صدقات کی آیت میں مساکین کے لیے جو حصہ مقرر کیا گیا ہے اسے فقراء کو دے دینا جائز ہے لیکن وصیت کا معاملہ اس کے برعکس ہے اس لیے کہ اگر کوئی شخص زید کے لیے وصیت کرتا ہے تو وہ وصیت عمرو کو نہیں جاسکتی۔ ۔۔۔۔ حضور ﷺ پر بہتان ہے کہ وہ کانوں کے کچے ہیں قول باری ہے ومنھم الذین یوذون النبی ویقولون ھو اذن قل اذن خیر لکم یومن باللہ ویومن للمومنین ورحمۃ للذین امنوا منکم ۔ ان میں سے کچھ لوگ ہیں جو اپنی باتوں سے نبی کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ کہو۔ وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہل ایمان اعتماد کرتا ہے اور سراسررحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو تم میں سے ایماندار ہیں ۔ حضرت ابن عباس ؓ ، قتادہ، مجاہد اور ضحاک کا قول ہے کہ منافقین کہتے ہیں کہ آپ کانوں کے کچے ہیں ہر ایک کی بات پر کان دھرتے ہیں ۔ ایک قول کے مطابق اس کی اصل اذن یاذن ہے جس کے معنی ہیں میں نے سنا شاعرہ کا قول ہے۔ فی سماع یاذن الشیخ لہ وحدیث مثل ماذی مشار سننے کے دوران شیخ کان لگا کر سنتے ہیں اور ایسی گفتگو کے دوران بھی جو اس طرح کی ہو جس کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ہے۔ آیت کا مفہوم ہے کہ نبی ﷺ تمہاری بھلائی کے لیے تمہاری باتوں پر کا نن دھرتے ہیں ، تمہارے برائی کے لیے وہ ایسا نہیں نہیں کرتے۔ قول باری یومن للمومنین کے متعلق ابن عباس کا قول ہے ۔ نبی اہل ایمان کو سچا سمجھتے ہیں ۔ یہاں حرفف لازم کا دخول اسی طرح ہے جس طرح اس قول باری میں ہے قل عسی ان یکون ردف لکم کہہ دو ، تو تب ہے کہ وہ تمہارے پیچھے ہی آ جانے اس کے معنی ہیں ردفکم ایک قول کے مطابق حرف لازم کا دخول ایمان بمعنی تصدیق اور ایمان بمعنی ایمان کے درمیان فرق کرنے کے لیے ہوا ہے اس لیے جب یومن للمومنین کہا گیا تو اس سے تصدیق کے سوا اور کوئی معنی سمجھ میں نہیں آسکتا ۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے قل لا تعتذرولن نومن لکم کہہ دو بہانے مت کرو، ہم تمہاری کسی بات کا اعتبار نہیں کریں گے یعنی ہم کبھی تمہیں سچا نہیں سمجھیں گے۔ اسی طرح یہ قول باری ہے وما انت بمومن من لنا اور تو ہماری بات کی تصدیق نہیں کرے گا ۔ بعض لوگ خبر واحد کو قبول کرلینے پر اس آیت سے استدلال کرتے ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اس کے نبی ﷺ اہل ایمان کو ان باتوں میں سچا سمجھتے ہیں جنکی وہ آپ کو اطلاع دیتے ہیں ۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آپ معاملات سے تعلق رکھنے والی خبروں کو قبول کرلیتے تھے اور اس بارے میں اہل ایمان کو سچا سمجھتے تھے ۔ جہاں تک احکام شرع اور دین سے تعلق رکھنے والے معاملات کے بارے میں خبروں کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں حضور ﷺ کی کسی کی بات سننے کی قطعا ً ضرورت نہیں تھی اس لیے کہ تمام لوگ دین کے بارے میں باتیں آپ سے ہی اخذ کرتے اور آپ کی ہی پیروی کرتے تھے۔
Top