Mualim-ul-Irfan - Hud : 116
فَلَوْ لَا كَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِكُمْ اُولُوْا بَقِیَّةٍ یَّنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْهُمْ١ۚ وَ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَاۤ اُتْرِفُوْا فِیْهِ وَ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ
فَلَوْ : پس کیوں لَا كَانَ : نہ ہوئے مِنَ : سے الْقُرُوْنِ : قومیں مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے اُولُوْا بَقِيَّةٍ : صاحبِ خیر يَّنْهَوْنَ : روکتے عَنِ : سے الْفَسَادِ : فساد فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑے مِّمَّنْ : سے۔ جو اَنْجَيْنَا : ہم نے بچالیا مِنْهُمْ : ان سے وَاتَّبَعَ : اور پیچھے رہے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا (ظالم) مَآ اُتْرِفُوْا : جو انہیں دی گئی فِيْهِ : اس میں وَكَانُوْا : اور تھے وہ مُجْرِمِيْنَ : گنہگار
پس کیوں نہیں ہوئے ان قوموں میں سے جو تم سے پہلے گزری ہیں ، صاحب عقل و خرد ، جو منع کرتے زمین میں فساد سے مگر بہت تھوڑے ان میں سے جن کو ہم نے نجات دی اور پیچھے چلے وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا اس چیز کے جس خو شحال میں ڈالے گئے تھے وہ اور وہ گنہگار تھے
ربط آیات حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تک کے بعض انبیاء کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (علیہ السلام) اور آپ کے ماننیوالوں کو تسلی بھی دی ہے۔ پہلے استقامت علی الدین کا مطالبہ کیا ، ظلم اور تعدی سے بچنے کا حک دیا اور تعلق باللہ کی استواری کی ترغیب دی۔ مصائب اور مشکلات کو برداشت کرنے اور صبر کا دامن تھامے رہنے کی تلقین کی۔ سابقہ امتوں کا حال بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے آخری امت کو بات سمجھائی ہے کہ ہمیشہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر کاربند رہیں۔ دین اور ایمان کے مقتضیات کو قائم رکھیں۔ کفر ، شرک نافرمانی ، ظلم اور تعدی سے بچتے رہیں۔ فساد فی الارض کی ممانعت اب ارشاد ہتا ہے فلولا کان من القرون من قبلکم پس کیوں نہ ہوئے ا ن قوموں میں سے جو تم سے پہلے گزرے ہیں اولوا بقیۃ صاحب عقل و خرد لوگ ینھون عن الفساد فی الارض جو منع کرتے زمین میں فساد کرنے سے الا قلیلاً ممن انجینا منھم مگر ان میں سے بہت تھوڑے ہیں (جو فساد سے منع کرتے ہیں) جنہیں ہم نے نجات دی۔ یہاں پر قرون کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قرن کی جمع ہے اور اس کا معنی جماعت ، سنگت ، نسل ، قوم ، طبقہ ، صدی یا دور ہوتا ہے۔ اس مقام پر ان تمام معافی کا اطلاق ہوتا ہے اور مطلب یہ ہے سابقہ اقوام اور ادوار میں بھی ایسا ہی ہوا کہ فساد سے روکنے والے بہت کم لوگ ہوئے ہیں۔ اولوا بقیۃ سے وہ لوگ مراد ہیں جن پر فساد سے روکنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یعنی صاحب عقل ، سمجھدار ، سوچ بچار کرنے والے اصحاب الرائے لوگ ، لوگوں کو فساد فی الارض سے منع کرنا ان لوگوں ا کام ہے ، مگر اللہ نے فرمایا کہ تم سے پہلے بہت تھوڑے لوگ ہی ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے فساد کو ختم کرنے کی کوشش کی وگرنہ اکثر و بیشتر لوگ فتنہ و فساد کے حمایتی ہی رہے ہیں اور انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ اس میں دراصل امت مسلمہ کے لئے تسلی کا پہلو ہے کہ اگر لوگوں کی اکثریت کفر و شرک کا ارتکاب کرتی ہے ظلم و تعددی کی مرتکب ہوتی ہے یا معاصی میں غرق ہے تو تمہیں اس سے گھبرانا نہیں چاہئے تم سے پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ البتہ ان حالات میں کرنے کا کام یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کیا جائے۔ لوگوں کو فساد کرنے سے روکا جئے۔ دنیا میں سب سے بڑا فساد کفر ، شرک اور ظلم وتعدی ہے۔ اصحاب عقل و خرد اور اصحاب جاہ و اقتدار کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو ہر قسم کے فساد سے روکیں۔ اگر ایسا نہیں کرینگے تو سب پر خدا کا قہر نازل ہوگا جس کے نتیجے میں تباہی اور بربادی آئے گی۔ اللہ کے نبی اور ان کے پیروکار تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اس کام کو انجام دیتے رہے ہیں اور وہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے نجات دی اور باقی سب کو ہلاک کیا۔ متاع دنیا میں رغبت فرمایا فساد فی الارض کو مٹانے والے تو تھوڑے لوگ رہے ہیں اور ان کی اکثریت نے کیا کیا ؟ واتبع الذین ظلموا ما اترفوا فیہظالم لوگوں نے اس خوشحالی کا اتباع کیا جس میں ان کو ڈالا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں آسودگی ، آرام طلبی ، خوشحالی عطا کی تھی ، چناچہ یہ لوگ انہی چیزوں کے پیچھے لگے رہے ظلم و فساد کو مٹانے کی کوشش نہ کی ، اپنی عیاشی میں منہمک رہے ، جس کا نتیجہ یہ نکلا وکانوا مجرمین اور وہ گنہگار اور مجرم تھے ۔ یہ لوگ حق کو قبول کرنے کی بجائے شرکیہ اور کفریہ رسومات کے پیچھے چلتے رہے ، بدعات کو رواج دیتے رہے اور دنیا کا سامان عیش و راحت ہی اکٹھا کرتے رہے انہوں نے فساد کرنے والوں کو منع تک نہ کیا۔ سورة انعام میں مکہ کے مشرکین کا بھی یہی حال اللہ نے بیان فرمایا ہے ” وھم ینھون عنہ وینون عنہ “ وہ لوگوں کو قرآن پاک سے روکتے تھے اور خود ہی اس سے دور رہتے تھے۔ اس طرح وہ فساد فی الارض کی حمایت کرتے تھے تو امت آخر الزمان کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم بھی سابقہ اقوام کی طرح نہ ہوجانا بلکہ خود بھی صحیح راستے پر چلنا اور دوسرے غلط راستے پر چلنے والوں کو بھی منع کرنا کہ وہ زمین میں فساد کے مرتکب نہ ہوں۔ فساد کے اثرات سورۃ بقرہ میں منافقوں کا حال بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا ہے ” واذا قیل لھم لاتفسدوا فی الارض “ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو ” وقالوآ انما نحن مصلحن “ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں اس کی تفسیر میں امام بیضاوی نے فساد فی الارض کی تعریف میں لکھا ہے الاخلال بالشرائع الالھیۃ یعنی اللہ کی نازل کردہ شریعت میں خلل ڈالنا اور اس کی خلاف ورزی کرنا فساد فی الارض ہے۔ امام شاہ ولی اللہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے زمین میں اصلاح ہوتی ہے اور شریعت کے خلاف کرنے سے فساد پیدا ہوتا ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں پاکیزہ عقیدے ، پاکیزہ عمل ، خدا کے سامنے عاجزی اور عدل و انصاف کے قیام سے انسان کا مزاج درست رہتا ہے اور وہ فرشتوں کے مزاج کے ساتھ مل جاتا ہے مگر جب انسان میں عقیدے کی نجاست آجاتی ہے اخلاق اور عمل کی نجاست پیدا ہوجاتی ہے۔ عاجزی کی بجائے غرور ، احسان کی بجائے لوٹ کھسوٹ اور عدل کی جگہ ظلم لے لیتا ہے تو پھر انسان کا مزاج بگڑ جاتا ہے۔ اس کی مثال حلال جانوروں کی ہے جن کا ہم دودھ پیتے اور گوشت کھاتے ہیں۔ جب تک یہ جانور اونٹ گائے ، بھینس ، بھیڑ ، بکری وغیرہ گھاس کھاتی رہیں گی ان کا مزاج درست رہے گا اور اگر ان میں سے کوئی جانور چارے کی بجائے گوشت کھانا شروع کر دے تو اس کا مزاج بگڑ جائے گا ، پھر اس کا دودھ قابل استعمال رہے گا اور نہ گوشت ، اس لئے شریعت میں گندگی کی کھانے والے جانور کا گوشت مکروہ تحریمی میں آتا ہے کیونکہ گندی چیزیں کھانے سے اس کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور اس کا دودھ اور گوشت قابل استعمال نہیں رہتا۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ ایسے جانور کو کم از کم دس دن تک باندھ کر رکھو تاکہ وہ گندگی نہ کھائے اس دوران اسے پاک چارہ کھلائو ، تب اس کا دودھ اور گوشت کھانے کے قابل ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ شریعت الٰہیہ کو قائم رکھنے سے انسان کا مزاج درست رہتا ہے اور جب وہ شرائع کی پابندی چھوڑ دیتا ہے تو مزاج بگڑ جاتے ہیں اور پھر تباہی و برباد کی کی قریب ہوجاتا یہ۔ اسلام میں جبر نہیں آگے ارشاد ہوتا ہے وما کان ربک لیھلک القری بظلم تیرا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کے رہنے والوں کو ظلم و زیادتی کے ساتھ ہلاک کر دے واھلھا مصلحون جب ان بستیوں کے رہنے والے اصلاح سند ہوں۔ جب تک لوگ اصلاح کی طرف مائل رہیں گے ، اللہ کی طرف سے عذاب نہیں آتا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر الے ، شرائع الہیہ پر چلنے والے اور قانون الٰہی کا احترام کرنے والے اللہ کے قہر سے محفوظ رہتے ہیں۔ اللہ نے سابقہ اقوام کے حالات اسی لئے بیان فرمائے ہیں تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں۔ اب آگے تسلی کا مضمون آ رہا ہے کہ تمام کے تمام لوگ ایک راستے پر کبھی نہیں ہے۔ لہٰذا اختلاف سے دل شکستہ نہیں ہونا چاہئے۔ ولو شآء ربک لجعل الناس امۃ واحدۃ اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت یعنی ایک ہی ایمان کے راستے پر ڈال دیتا اور کوئی شخص بھی شرائع الہیہ کی خلاف ورزی نہ کرتا۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے عین اختیار میں ہے مگر اس کے قانون کے خلاف ہے۔ وہ کسی کو زبردستی کوئی بات نہیں منوانا چاہتا ہے۔ اس نے ایک حد تک انسان کو عقل و شعور اور اختیار دیا ہے کہ وہ اچھے اور برے راستے میں سے جونسا چاہے اختیار کرے لے اور ساتھ حم بھی دیا کہ ایمان اور نیکی کا راستہ اختیار کرو اور کفر و شرک اور معاصی سے بچ جائو۔ تم جو بھی طریقہ اختیار کرو گے اسی کے مطابق بدلہ پائو گے۔ اللہ تعالیٰ کا عام قانون یہ ہے ” لا اکراہ فی الدین “ (البقرۃ) یعنی دین میں جبر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو ایمان قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ اسے موقع دیتا ہے اور پھر ایمان اسی کا معتبر ہوگا جو اپنی مرضی سے اسے قبول کریگا۔ اس نے ہدایت اور گمراہی کا راستہ واضح کردیا ہے ، اس کے لئے انبیاء کو مبعوث فرمایا ہے اور کتابیں نازل کی ہیں اور فرمایا ” فمن شآء فلیومن ومن شآء فلیکم “ (الکہف) جس کا جی چاہے ایمان قبول کرے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے ، یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا اور فرمایا ، تیری وجہ سے ہی میں مئواخذہ کروں گا اور تیری وجہ سے ہی عطا کروں گا ، اللہ نے جس کو عقل عطا نہیں کی اس کا مئواخذہ بھی نہیں ہے۔ جب تک بچہ سن شعور کو نہیں پہنچتا وہ مکلف نہیں ہوتا۔ پاگل اور دیوانے بھی اسی لئے غیر مکلف ہیں کہ وہ عقل سے خالی ہیں۔ اللہ نے عقل بہت بڑا جوہر عطا کیا ہے ، اس کے ساتھ جملہ سامان ہدایت عطا کئے ہیں۔ انبیاء مبعوث فرمائے ، کتابیں نزل کیں۔ حواس ظاہرہ اور باطنہ عطا کر کے کھلا چھوڑ دیا کہ جس کا جی چاہے اطاعت اختیار اور جس کا جی چاہے کفر کا انتخاب کرے۔ اگر نیکی کو اپنائے گا تو اللہ تعالیٰ راضی ہوگا اور اگر کفر اور شرک کا راستہ اختیار کرے گا تو گرفت میں آئے گا کیونکہ اس کا فیصلہ ہے ” ولا یرضی لعبادہ الکفر “ (الزمر) اللہ اپنے بندوں سے کفر کو پسند نہیں کرتے۔ وہ ظالموں کو ایسے جہنم میں ڈالے گا احاط بھم سراد فھا (الکہف) جیسے آگ کی قناتیں گھیرے ہوں گی۔ دین میں اختلاف فرمایا ولا یزالون مختلفین الا من رحم ربک لوگ برابر اختلاف کرنے والے ہوں گے ، ہاں جس پر خدا تعالیٰ کی مہربانی ہوگی وہ کفر و شرک کے اختلاف سے بچ جائے گا۔ رحمت الٰہی اس شخص کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو عناد اور ضد نہیں کرتا۔ ہر چیز کا ظاہری اور باطنی سبب ہوا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرتا ہے جو اس کا قائل ہو۔ من لایرحمالناس لای (رح)۔ جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا ، اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔ لہٰذا عناد ی لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہتے ہیں۔ ولذلک خلقھم اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی واسطے پیدا کیا ہے۔ ذلک کا مرجع اختلاف بھیہو سکتا ہے اور رحم بھی۔ اگر اختلاف مراد لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے تو انسانکو مجبور پیدا نہیں کیا اس نے تو انسان کو تمام صلاحیتیں اور راہنمائی کے تمام ذرائع مہیا کردیئے ہیں اس کے باوجود اگر کوئی اختلاف کرتا ہے تو کرتا رہے اسے آگے چل کر اس کا نتیجہ بھی بھگتنا پڑے گا اور اگر تخلیق انسانی کو رحم کی طرف منسوب کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تو انسان کی تخلیق اس پر رحم کرنے کے لئے کی تھی ، مگر یہخود اپنے خلاق اور مالک کی حکم عدولی کر کے سزا کا مستحق بنتا ہے۔ قرآن پاک میں انسانی تخلیق کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے ” وما خلقت الجن والانس الالیعبدون “ (الذریت) یعنی انسانوں اور جنوں کو محض اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اگر انسان مقصد تخلیق کو پورا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صحیح طریقے سے عبادت کریگا تو لازماً وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مستحق بنے گا ، اسی لئے فرمایا کہ انسان کی تخلیق کا مقصد اس پر مہربانی کرنا ہے۔ جہنم پھرجائے گی فرمایا اللہ تعالیٰ نے تو لوگوں کو رحم کے لئے پیدا کیا تھا مگر انہوں نے برابر اختلاف کیا ، اور کرتے رہیں گے اور پھر ایکدنایسا بھی آئیگا جب کہ ” ان ربک ھو یفصل بینھم یوم القیمۃ فیما کانوا فیہ یختلفون “ اللہ تعالیٰ ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا اس بات میں جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔ یہ قیامت کا دن ہوگا جب تمام متنازعہ امور کا فیصلہ کر دیاجائے گا ۔ پھر آگے فرمایا وتمت کلمۃ ربک تیریرب کی بات پوری ہوجائے گی اور وہ یہ ہے کہ لاملئن جھنم من الجنۃ والناس اجمعین میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے ضرور بھر دوں گا۔ جس نے بغاوت کی اور زمین میں فساد برپا کیا ، کفر و شرک کا راستہ پکڑ ا ظلم وتعدی کو اختیار کیا ، ان سب کو جہنم رسید کروں گا۔ اکثر و بیشتر انسان ہمیشہ اسی بیماری میں مبتلا رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ پوری دنیا کی پانچ ارب کی آبادی میں سوا چار ارب انسان کفر و شرک میں ہی مبتلا ہیں۔ کل آبادی کا پانچواں حصہ بھی خدا کی وحدانیت پر قائم نہیں اور پھر جنوں کی آبادی تو انسانوں سے بھی زیادہ ہے۔ آج وہ نظر نہیں آتے مگر قیامت کو سب پردے اٹھ جائیں گے اور سب ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے تو ایسے ہی ناہنجاروں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے سابقہ اقوا م کا حال بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ اس امت محدمیہ کو خیال کرنا چاہئے کہ کہیں وہ بھی اس بیماری کا شکار بن کر جہنم کے مستحق نہ ٹھہریں۔
Top