Tafseer-e-Usmani - Hud : 116
فَلَوْ لَا كَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِكُمْ اُولُوْا بَقِیَّةٍ یَّنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْهُمْ١ۚ وَ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَاۤ اُتْرِفُوْا فِیْهِ وَ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ
فَلَوْ : پس کیوں لَا كَانَ : نہ ہوئے مِنَ : سے الْقُرُوْنِ : قومیں مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے اُولُوْا بَقِيَّةٍ : صاحبِ خیر يَّنْهَوْنَ : روکتے عَنِ : سے الْفَسَادِ : فساد فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑے مِّمَّنْ : سے۔ جو اَنْجَيْنَا : ہم نے بچالیا مِنْهُمْ : ان سے وَاتَّبَعَ : اور پیچھے رہے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا (ظالم) مَآ اُتْرِفُوْا : جو انہیں دی گئی فِيْهِ : اس میں وَكَانُوْا : اور تھے وہ مُجْرِمِيْنَ : گنہگار
سو کیوں نہ ہوئے ان جماعتوں میں جو تم سے پہلے تھیں ایسے لوگ جن میں اثر خیر رہا ہو کہ منع کرتے رہتے بگاڑ کرنے سے ملک میں مگر تھوڑے کہ جن کو ہم نے بچا لیا ان میں سے اور چلے وہ لوگ جو ظالم تھے وہی راہ جس میں عیش سے رہے تھے اور تھے گناہ گار8 
8  یہ پچھلوں کا حال سنا کر امت محمدیہ کو ابھارا گیا ہے کہ ان میں " امربالمعروف " اور " نہی عن المنکر " کرنے والے بکثرت موجود رہنے چاہیں۔ گزشتہ قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ عام طور پر لوگ عیش و عشرت کے نشہ میں چور ہو کر جرائم کا ارتکاب کرتے رہے اور بڑے با اثر آدمی جن میں کوئی اثر خیر کا باقی نہیں تھا انہوں نے منع کرنے چھوڑ دیا، اس طرح کفر و عصیان اور ظلم و طغیان سے دنیا کی جو حالت بگڑ رہی تھی اس کا سنوارنے والا کوئی نہ رہا۔ چند گنتی کے آدمیوں نے " امر بالمعروف " کی کچھ آواز بلند کی مگر نقار خانہ میں طوطی کی صدا کون سنتا تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ منع کرنے والے عذاب سے محفوظ رہے باقی سب قوم تباہ ہوگئی۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں " نیک لوگ غالب ہوتے تو قوم ہلاک نہ ہوتی۔ تھوڑے تھے سو آپ بچ گئے۔ ' حدیث صحیح میں ہے کہ جب ظالم کا ہاتھ پکڑ کر ظلم سے نہ روکا جائے اور لوگ " امر بالمعروف " و " نہی عن المنکر " ترک کر بیٹھیں، تو قریب ہے کہ خدا تعالیٰ ایسا عام عذاب بھیجے جو کسی کو نہ چھوڑے (العیاذ باللہ) ۔
Top