Tafseer-e-Madani - Hud : 116
فَلَوْ لَا كَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِكُمْ اُولُوْا بَقِیَّةٍ یَّنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْهُمْ١ۚ وَ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَاۤ اُتْرِفُوْا فِیْهِ وَ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ
فَلَوْ : پس کیوں لَا كَانَ : نہ ہوئے مِنَ : سے الْقُرُوْنِ : قومیں مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے اُولُوْا بَقِيَّةٍ : صاحبِ خیر يَّنْهَوْنَ : روکتے عَنِ : سے الْفَسَادِ : فساد فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑے مِّمَّنْ : سے۔ جو اَنْجَيْنَا : ہم نے بچالیا مِنْهُمْ : ان سے وَاتَّبَعَ : اور پیچھے رہے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا (ظالم) مَآ اُتْرِفُوْا : جو انہیں دی گئی فِيْهِ : اس میں وَكَانُوْا : اور تھے وہ مُجْرِمِيْنَ : گنہگار
پھر کیوں نہ ہوئے ان قوموں میں جو گزر چکی ہیں تم سے پہلے ایسے اہل خیر، جو روکتے (لوگوں کو) فساد پھیلانے سے زمین میں، بجز ان تھوڑے سے لوگوں کے ان میں سے جن کو ہم نے بچا لیا (عذاب سے) اور وہ لوگ ظلم پر کمر بستہ تھے وہ پیچھے لگ رہے اپنی انہی عیش پرستیوں کے جن کا سامان ان کو فراوانی کے ساتھ دیا گیا تھا، اور وہ جرائم پیشہ ہی رہے
223 ۔ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت و عظمت : سو ارشاد فرمایا گیا اور تحریک تحضیض کے لیے حرف تحضیض کے ساتھ فرمایا گیا کہ پھر کیوں نہ ہوئے ان لوگوں کے اندر نیک اور اہل خیر لوگ جو لوگوں کو روکتے زمین میں فساد پھیلانے سے۔ یعنی ان کے اندر ایسے لوگ ہونے چاہیے تھے تاکہ یہ قومیں بچ جاتیں اس ہولناک انجام سے جس سے دوچار ہو کر وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ اور ایسی مٹیں کہ قصہ پارینہ بن کر رہ گئیں۔ سو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ایک ایسا عظیم الشان فریضہ ہے جو قوموں اور ملکوں کو ہلاکت اور تباہی سے بچاتا اور محفوظ رکھتا ہے۔ ورنہ جب قومیں اجتماعی طور پر برائیوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں تو پھر ان کو اسی طرح ہلاکت اور تباہی کے گڑھے میں پھینک دیا جاتا ہے جس طرح کہ گلے سڑے پھلوں کے ٹوکرے کو اٹھا کر کوڑے کرکٹ کے اس ڈھیر میں پھینک دیا جاتا ہے جس کو آگ سے جلا کر نیست و نابود کرنا ہوتا ہے۔ والعیاذ باللہ۔ سو اس سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ مقدسہ کی اہمیت و عظمت واضح ہوجاتی ہے کہ یہی چیز ہے فساد سے بچانے والی۔ لیکن افسوس کہ آج امت مسلمہ اس سے غافل و لاپرواہ ہے۔ الا ماشاء اللہ جل وعلا۔ اور اسی کے نتیجے میں آج دھرتی فساد اور فسادیوں سے بھر گئی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ اپنی خاص رحمت و عنایت اور فضل و کرم سے نوازے۔ آمین۔ 224 ۔ امر بالمعروف ذریعہ سلامتی و نجات : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ امر بالمعروف ذریعہ سلامتی و نجات ہے اور اس کے برعکس کلمہ حق و ہدایت سے منہ موڑنا باعث ہلاکت و تباہی۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ سو ارشاد فرمایا گیا بجز ان تھوڑے سے لوگوں کے جن کو ہم نے بچا لیا اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت و عنایت سے ان کے انبیاء و رسل کے ساتھ۔ مگر قلیل تعداد کے ان بندگان صدق و صفا کی آواز اور تبلیغ و تلقین کا ان بہکے، بھٹکے اور بگڑے ہوئے لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا اور ان بگڑی ہوئی قوموں نے نہ صرف یہ کہ اپنے ان خیر خواہوں کی باتوں پر کان نہیں دھرا اور حق کی طرف رجوع نہیں کیا۔ بلکہ وہ الٹا ان کے درپے آزار ہوگئے اور انہوں نے ان کو طرح طرح سے ستایا اور تنگ کیا۔ (المنار، المراغی وغیرہ) جس کا نتیجہ و انجام ان کو ایسی ہولناک تباہی اور دائمی عذاب کی صورت میں بھگتنا پڑا کہ یہ ہمیشہ ہمیش کے لیے مٹ گئے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ سو اس سے امر بالمعروف اور نہی المنکر کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب لوگ برائی کو اپنے درمیان ہوتا دیکھیں اور اس سے نہ روکیں تو وہ وقت دور نہیں کہ جب اللہ کا عذاب ان سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے (ابن کثیر وغیرہ) ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اور ہر طرح سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔ 225 ۔ نور حق سے محروم عیش پرستوں کا انجام بہت برا۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ اڑے ہوئے تھے اپنے ظلم پر وہ اپنی انہی عیش پرستیوں کے پیچھے لگے رہے جن کا سامان ان کو فراوانی کے ساتھ دیا گیا تھا اور وہ تھے ہی محروم لوگ۔ سو اس سے اہم بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ جو لوگ دنیاوی سامان عیش و عشرت کے پیچھے لگ کر حق سے منہ موڑ لیتے ہیں اور ناصح کی نصیحت پر کان نہیں دھرتے وہ آخرکار اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں۔ اور ایسے اور اس طور پر کہ پھر ان کے لیے اس سے بچنے اور نکلنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف اس ارشاد سے ان عذاب پانے والی قوموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے واضح فرمایا گیا کہ کیا چیز ان کی ایسی ہولناک تباہی کا باعث بنی اور اس سے مقصود دور حاضر کے کفار و منکرین اور دوسرے مجرموں کو متنبہ کرنا ہے کہ اگر تم لوگوں نے بھی کفر و انکار اور بغاوت و سرکشی کی اسی روش کو اپنائے رکھا جس کو کل کے ان منکروں نے اپنایا تھا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ تمہارا انجام ان کے انجام سے مختلف ہو کہ اللہ تعالیٰ کا قانون و دستور بہرحال ایک اور سب کے لیے یکساں ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ کل کے ان منکروں میں ایسے لوگ باقی نہیں رہ گئے تھے جو لوگوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے بجز تھوڑے سے لوگوں کے۔ سو عذاب آنے پر ان کو تو ہم نے بچا لیا لیکن ان منکروں کی اکثریت اپنی خواہشات پرستی اور خر مستی میں ہی محو و مگن رہی۔ حق بات کو انہوں نے مان کر نہ دیا اور اپنے اختیار کردہ کفر و باطل پر یہ اڑے ہی رہے۔ اس لیے مدت مہلت ختم ہوتے ہی ان کو دھر لیا گیا۔ اور یہ لوگ اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے کہ یہ مجرم لوگ تھے۔ اور مجرموں کا انجام بہرحال بہت برا ہوتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top