Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 77
وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَاۤ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے غَيْبُ : پوشیدہ باتیں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَآ : اور نہیں اَمْرُ السَّاعَةِ : کام ( آنا) قیامت اِلَّا : مگر (صرف) كَلَمْحِ الْبَصَرِ : جیسے جھپکنا آنکھ اَوْ : یا هُوَ : وہ اَقْرَبُ : اس سے بھی قریب اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
اور اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں پوشیدہ چیزیں آسمانوں اور زمین کی اور نہیں ہے معاملہ قیامت کا مگر جیسا کہ ایک نگاہ کا پٹنا یا اس سے بھی زیادہ قریب بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔
(ربط آیات) گذشتہ دروس میں اللہ نے شرک کی تردید میں بعض دلائل اور مثالیں بیان فرمائیں ایک مثال یہ بیان فرمائی کہ ایک شخص غلام بھی ہے اور گونگا بھی ، وہ بالکل نکما ہے ، جو بھی کام اس کے سپرد کیا جائے وہ کوئی اچھا نتیجہ پیش نہیں کرتا اور اس طرح آپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے ، دوسری طرف ایک آزاد اور مومن آدمی ہے ، اور خود بھی عدل و انصاف پر قائم ہے اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتا ہے ، یہ شخص اللہ کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر ہے تو اللہ نے ان دو شخصوں کا حال بیان کرکے فرمایا کہ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ یہی مثال ایک مشرک اور موحد کی ہے ، جس طرح مذکورہ دو شخص برابر نہیں ، اسی طرح مشرک اور توحید پرست برابر نہیں ، ان دونوں میں فرق ہے ۔ (استعداد عمل اور جزا) مومن اور مشرک میں تفاوت دراصل ہر آدمی کی استعداد اور عمل میں تفاوت کی وجہ سے ہے ، بظاہر تو سارے انسان برابر نظر آتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے سب کو اعضائے ظاہرہ اور باطنہ سے نوازا ہے مگر ہر انسان کے ہر عضو کی استعداد مختلف ہے جس کے مطابق وہ عمل کرتا ہے اور اس کا نتیجہ مرتب ہوتا ہے ، انسان ظاہری آنکھ سے دوسرے کے ظاہر کو تو دیکھ سکتا ہے مگر اس کے دل کی کیفیت کو نہیں جان سکتا۔ نگاہ بانگاہ امیزہ دادی دل را از دل جدا کردی ۔ اللہ تعالیٰ نے آنکھوں کو آنکھوں کے ساتھ تو مشابہت دیدی ہے مگر دل کو دل سے جدا کردیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کا حال معلوم نہیں کرسکتے غرضیکہ ہر انسان کی استعداد عمل اور پھر اس سے اخذ ہونے والے نتیجہ کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہی اپنے علم کے مطابق ہر شخص کو بدلہ دے گا مخلوق میں سے کوئی ذات ایسی نہیں جو کسی کے تفصیلی حالات سے واقف ہو آج کی پہلی آیت کریمہ میں اسی بات کو بیان کیا گیا ہے ۔ (عالم الغیب والشہادۃ) اللہ ہی کے لیے ہیں آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں ، جو چیزیں بھی انسانوں جنوں اور فرشتوں سے پوشیدہ ہیں ، ان کا علم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے پوری مخلوق میں سے کوئی بھی ان کے علم کا دعوی نہیں کرسکتا دراصل ایسے مواقع پر غیب کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر انسانوں یا دوسری مخلوق کی نسبت سے کیا جاتا ہے یعنی جو چیزیں مخلوق سے پردہ غیب میں ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں وگرنہ اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز بھی غیب نہیں ، وہ ہر چیز کا خالق اور مالک ہے ، اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی نگاہ میں ہے ، سورة یونس میں موجود ہے ، (آیت) ” وما یعزب عن ربک من مثقال ذرۃ فی الارض والا فی السمآء “۔ تیرے پروردگار سے تو کائنات کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے تو عالم الغیب والشہادۃ کا یہی مطلب ہے کہ مخلوق کی نسبت سے جو چیزیں بھی ظاہر ہیں یا پوشیدہ ، محسوسات میں سے ہیں غیر محسوسات میں سے ، ہر چیز خدا تعالیٰ کے علم میں ہے ، اس سے کوئی چیز مخفی نہیں ۔ سورة الملک میں اس بات کو دوسرے انداز میں بیان کیا گیا ہے (آیت) ” الا یعلم من خلق وھو اللطیف الخبیر “۔ کیا کائنات کو وہی نہیں جانے گا جس نے اسے پیدا کیا حالانکہ وہ لطیف (باریک بین) بھی ہے اور ہر چیز کی خبر بھی رکھتا ہے ۔ عالم الغیب والشہادۃ ہونا اللہ تعالیٰ کی صفات مختصہ میں سے ہے اگر کوئی شخص مخلوق میں سے کسی میں یہ صفت تسلیم کرے گا تو وہ مشرک بن جائے گا جس طرح اللہ کے سوا قادر مطلق کوئی نہیں ، اسی طرح اس کے سوا عالم الغیب بھی کوئی نہیں ، ہر انسان کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن اس کی روح اور اسکے روح اور اس کے لطائف ہیں ، اس کا نفسہ ناطقہ ہے ، ان ظاہری اور باطنی قوی کی استعداد کو بھی اللہ ہی جانتا ہے ، ہر شخص کے علم سے بھی وہی واقف ہے ، لہذا وہ اپنے اسی علم اور مخلوق کے عمل کی بناء پر ہر ایک کو بدلہ بھی جدا جدا دے گا ۔ (قیامت کی اچانک آمد) اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ہی کے تسلسل میں یہ بھی فرمایا کہ وقوع قیامت کا علم بھی اسی کے پاس ہے (آیت) ” وما امر الساعۃ الا کلمح البصر “۔ اور قیامت کا معاملہ تو ایسا ہے کہ یہ آنکھ جھپکنے میں واقع ہو جائیگی بلکہ (آیت) ” اوھو اقرب “۔ آنکھ کا پلٹنا تو دور کی بات ہے ، قیامت اس سے بھی پہلے برپا ہو جائیگی ، (آیت) ” ان اللہ علی کل شیء قدیر “۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے حضور ﷺ نے وقوع قیامت کے متعلق کئی ایک باتیں بتلائی ہیں ، مثلا یہ کہ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوں گے کسی نے کھانے کا لقمہ اٹھایا ہوگا اور ابھی وہ منہ تک نہیں لے جائیگا کہ قیامت کا بگل بج جائے گا سورة الاعراف میں موجود ہے (آیت) ” لا تاتیکم الا بغتۃ “۔ یہ اچانک ہی تمہارے پاس آجائے گی ، اس کے لیے (آیت) ” الی اجل مسمی “۔ کے الفاظ قرآن پاک میں بار بار آتے ہیں کہ وہ اپنے مقررہ وقت پر ضرور واقع ہوجائے گی اور پھر اس کے بعد جزائے عمل کا وقت آئے گا (آیت) ” یوم تبلی السرآئر “۔ (الطارق) اس دن پوشیدہ چیزیں ظاہر ہوجائیں گی اور محاسبے کا عمل شروع ہوجائے گا ، ہر انسان کو اپنی استعداد اور عمل کے مطابق بدلہ ملے گا جو کہ ہر ایک کے لیے جدا جدا ہوگا ، آج کوئی نبی ، ولی ، جن فرشتہ ، یا کوئی اور مقرب اس کیفیت کے متعلق کچھ نہیں جانتا ۔ یہ حال انسان کی انفرادی زندگی کا بھی ہے ، اس کے وقت کا علم بھی کسی کے پاس نہیں اور یہ بھی اچانک آجاتی ہے ، حادثات بھی پیش آجاتے ہیں ، بیماری میں بھی صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ، اللہ تعالیٰ کا قانون اٹل ہے کہ جب وہ وقت مقررہ آجاتا ہے ، (آیت) ” لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون “۔ تو پھر ایک گھڑی بھر بھی آگے پیچھے نہیں ہوتا بلکہ عین وقت پر موت آجاتی ہے ، ہر فرد کی موت قیامت صغری کہلاتی ہے اور کائنات کی مجموعی موت کو قیامت کبری کا نام دیا گیا ہے حضور ﷺ کا ارشاد (1) (مرقاۃ شرح مشکوۃ ص 234 ج 10) ” من مات فقد قامت قیامتہ “۔ جو شخص مرگیا اس کی قیامت تو برپا ہوگئی کیونکہ وہ جزائے عمل کی منزل میں داخل ہوگیا ، موت کے بعد قبر کی منزل ہے عالم برزخ ہے پھر وقوع قیامت اور محاسبے کا پورا عمل واقع ہونے والا ہے ، یہ ساری منزلیں آخرت کی منزل کی کڑیاں ہیں ۔ (قبر کی منزل) انفرادی موت کے بعد انسان کی سب سے پہلے قبر کی منزل آتی ہے حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ عقبی کی منزلوں میں سے قبر پہلی منزل ہے اور اس کا معاملہ بہت خطرناک ہے ، اگر قبر کی منزل آسان ہوگئی تو انشاء اللہ آگے کی منزلوں میں بھی آسانی ہوگی ، اور یہیں مشکل پیش آگئی تو اگلی منزلیں مزید مشکل ہوجائیں گی ، ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضرت عثمان ؓ قبرستان میں پہنچ کر بہت روتے حتی کہ آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوجاتی ، دوستوں نے پوچھا حضرت ! آپ قبور کی زیارت پر بہت گریہ کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ تو آپ نے یہی بات فرمائی کہ آخرت کی منزلوں میں سے قبر پہلی منزل ہے اگر یہ آسان ہوگئی تو اگلی منزلیں بھی آسان ہوتی جائیں گی وگرنہ معاملہ مشکل ہے ۔ (انسان کے ذرائع علم) آگے اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش اور پھر اس پر کیے گئے انعامات کا ذکر کرکے اسے شکریہ ادا کرنے کی تلقین کی ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واللہ اخرجکم من بطون امھتکم “۔ اللہ کی ذات وہ ہے کہ جس نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ، یعنی تمہیں پیدا کیا ، اور اس وقت تمہاری حالت یہ تھی (آیت) ” لا تعلمون شیئا “۔ کہ تمہیں کسی چیز کا علم نہیں تھا تم اس دنیا میں بالکل اجنبی تھے مگر اللہ تمہارے لیے ذرائع علم پیدا کیے اور وہ اس طرح (آیت) ” وجعل لکم السمع والابصار والافدۃ “۔ کہ تمہارے لیے کان ، آنکھیں اور دل پیدا کیے ، اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو کان عطا کیے ہیں تاکہ اگر کسی ایک میں خرابی واقع ہوجائے تو دوسرے سے کام چلایا جاسکے ، کان اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ اگر یہ نہ ہوتے تو انسان نہ کچھ سن سکتا نہ سیکھ سکتا اور نہ بول سکتا ، ظاہر ہے کہ چھوٹا بچہ اپنے ماحول سے سن کر ہی باتیں کرنا سیکھتا ہے ، اگر وہ کوئی بات سنے گا نہیں تو اسے بات کرنی کیسے آئے گی ، اسی لیے جو بچے پیدائشی گونگے ہوتے ہیں وہ دراصل کانوں کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں حالانکہ ان کی زبان بالکل ٹھیک ہوتی ہے مگر ہو نہ سننے کی وجہ سے بات سیکھتے ہی نہیں لہذا وہ گونگے بھی ہوتے ہیں بہرے بھی ۔ اسی طرح آنکھیں بھی بہت بڑی نعمت ہیں ، آنکھ کی قدر نابینا سے پوچھئے جس کے لیے سارا جہاں گھپ اندھیر ہے ، آنکھ نہیں تو کچھ بھی نہیں بیچارہ پڑھنے لکھنے سے محروم ہوجاتا ہے ، کسی چیز کی حقیقت کو نظر سے نہیں دیکھ سکتا ، جس کی بناء پر اسے اشیاء کا مکمل علم حاصل نہیں ہو سکتا پھر انسان کا دل اس کے جسم کا مرکز ہے ، اس کے ساتھ دماغ شامل ہو کر ہر کام میں غور وفکر کرتا ہے ، غور وفکر دماغ کے ذریعے ہوتا ہے اور عملی اقدام دل کی وساطت سے ہوتا ہے ، غوروفکر کے معاملہ میں اللہ کے آخری پیغام قرآن پاک کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ، اسی لیے تو سورة محمد میں اللہ نے فرمایا ہے (آیت) ” افلا یتدبرون القران ام علی قلوب اقفالھا “۔ یہ لوگ قرآن پاک میں غور وفکر کیوں نہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں ، غرضیکہ انسان کا دل بھی اس کے لیے بہت بڑی نعمت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان تین اہم ترین چیزوں یعنی کان ، آنکھ اور دل کا ذکر کے انسان کو یاد دلایا ہے کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے ، ہم نے یہ نعمتیں عطا کرکے تمہیں علم کے ذرائع مہیا کردیے کہ انکو بروئے کار لا کر علم جیسی عظیم نعمت حاصل کرو (آیت) ” لعلکم تشکرون “ اور میرا شکر ادا کرو ، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ کانوں سے قرآن پاک اور دین کی باتیں سنی جائیں ، نہ کہ فحش گانے سماعت کیے جائیں ، آنکھوں سے قرآن پاک کی تلاوت کی جائے ، اچھی کتابیں پڑھی جائیں ، شعائر اللہ کی زیارت کی جائے نہ کہ ٹیلیویژن پر فحش مناظر دیکھے جائیں ، آنکھ کی حفاظت پر اللہ اور اس کے رسول نے بڑی تاکید فرمائی ہے ، شرم وحیا کے تقاضے آنکھ کے ذریعے ہی پورے کیے جاتے ہیں اسی طرح انسان کا دل ہے جو نیکی پر بھی مائل ہو سکتا ہے اور برائی پر بھی ، یہ مظلوم کی مدد کے لیے بھی کھڑا کرسکتا ہے اور کسی کی حق تلفی کے لیے بھی آمادہ کرسکتا ہے دل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں غور وفکر کرکے اس کی وحدانیت کو سمجھنا چاہئے ، تو یہ تینوں نعمتیں ، اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائیں تاکہ اس کا شکریہ ادا کرو ۔ (فلسفہ معاش) بعض لوگ معاش کے مسئلہ کو بہانا بنا کر اللہ تعالیٰ کے احکام کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں ، کہتے ہیں کہ ہم روز گار کے مسئلہ میں ہی الجھے رہتے ہیں ، اس لیے ہم کوئی نیکی کا کام نہیں کرسکتے ، عبادت اور ریاضت کی طرف توجہ نہیں دے سکتے اور نہ ہماری علمی یا دماغی اصلاح ہو سکتی ہے اللہ نے معاش کا مسئلہ ایک مثال کے ذریعے سمجھایا ہے (آیت) ” اولم یروا الی الطیر مسخرت فی جو السمآء “۔ کیا ان لوگوں نے پرندوں کی طرف نہیں دیکھا جن کو اللہ نے فضا میں مسخر کیا ہوا ہے ، وہ جدھر چاہتے ہیں اڑتے پھرتے ہیں اور کشش ثقل انہیں گرا نہیں دیتی ، البتہ جب وہ خود چاہتے ہیں تو زمین پر اتر جاتے ہیں ، فرمایا (آیت) ” ما یمسکھن الا اللہ “۔ فضا میں اللہ کے سوا انہیں تھامنے والا کون ہے ، سورة الملک میں (آیت) ” الا الرحمن “ کے الفاظ آتے ہیں یعنی انہیں کھلی فضاؤں میں تھامنے والا صرف رحمان ہی ہے ، پرندے اپنے پروں کو پھیلاتے اور سکیڑتے ہوئے دور دور تک چلے جاتے ہیں ، اللہ نے ان کے لیے اڑان کے راستے آسان کردیے ہیں اور یہ سینکڑوں میل کا سفر بآسانی طے کرلیتے ہیں ، ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ پرندے صبح سویرے خالی پیٹ اپنے گھونسلوں سے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں ، اگر تم پرندوں جتنا توکل بھی کرتے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بھی ویسے ہی روزی پہنچاتا جس طرح ان پرندوں کو پہنچاتا ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ انسان پرندوں جیسا توکل بھی نہیں رکھتا ، اگر انسان اللہ کے احکام کے مطابق اپنے فرائض کو بجا لائے اور روزی کے جائز ذرائع استعمال کرے تو اللہ اسے مایوس نہیں کرے گا اسباب رزق بھی اللہ تعالیٰ ہی پیدا فرماتا ہے ، لہذا ان اسباب کو اختیار کرنے کے بعد اسباب کی بجائے بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہی کرنا چاہئے کیونکہ وہ چاہے گا تو اسباب میں اثر پیدا ہوگا ، ورنہ نہیں ، اللہ تعالیٰ نے پرندوں کی یہ مثال بیان کرکے توحید خداوندی کا درس دیا ہے ، فرمایا (آیت) ” ان فی ذلک لایت لقوم یؤمنون “ اس قسم کی مثالوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت کی نشانیاں ہیں مگر ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور معاد پر یقین رکھتے ہیں ، اور جو لوگ ایمان سے خالی ہیں ان کے لیے یہ مثالیں کچھ فائدہ نہیں دیتیں ، نہ وہ اللہ کو صحیح طور پر پہچانتے ہیں اور نہ اسکی اطاعت گزاری کرتے ہیں ، برخلاف اس کے جانور ، پرندے ، چرندے کیڑے مکوڑے شجر وحجر سب اللہ کے اطاعت گزار ہیں اور اس کے حکم سے سرمو انحراف نہیں کرتے ، مگر انسانوں میں ایک گروہ ایسا ہے جو اللہ کا نافرمان ہے ۔ بلکہ اکثریت ناشکر گزاروں کی ہے اور بہت کم لوگ ہیں جو اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔
Top