Tafseer-e-Jalalain - An-Nahl : 77
وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَاۤ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے غَيْبُ : پوشیدہ باتیں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَآ : اور نہیں اَمْرُ السَّاعَةِ : کام ( آنا) قیامت اِلَّا : مگر (صرف) كَلَمْحِ الْبَصَرِ : جیسے جھپکنا آنکھ اَوْ : یا هُوَ : وہ اَقْرَبُ : اس سے بھی قریب اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
اور آسمانوں اور زمین کا علم خدا ہی کو ہے اور (خدا کے نزدیک قیامت کا آنا یوں ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا بلکہ (اس سے بھی) جلد تر۔ کچھ شک نہیں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
آیت نمبر 77 تا 83 ترجمہ : آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کا علم اللہ ہی کو ہے یعنی ان دونوں میں مخفی چیزوں کا علم، قیامت کا معاملہ تو بس ایسا ہوگا جیسا کہ پلک کی ایک جھپک یا اس سے بھی جلدی، اسلئے کہ وہ لفظ کن سے ہوگا، تو وہ ہوجائے گی، یقیناً اللہ ہر شئ پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ سے اس حال میں پیدا کیا کہ تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے (لاتعلمون شیئًا) کم ضمیر سے حال ہے، اور اس نے تمہیں کان دیئے سمع، اسماعٌ کے معنی میں ہے اور آنکھیں دیں اور دل دیئے تاکہ تم ان کا شکریہ ادا کرو، اور ایمان لے آؤ، کیا لوگوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا ؟ کہ وہ پرواز کے لئے آسمان کی فضاء میں مسخر ہورہے ہیں یعنی آسمان اور زمین کی درمیانی فضاء میں، ان کے بازؤں کو بند کرنے اور کھولنے کی حالت میں اللہ ہی کی قدرت ہے جو ان کو گرنے سے تھامے ہوئے ہے ایمان والوں کے لئے اس میں (قدرت) کی چند نشانیاں ہیں یعنی اس نے ان کو ایسا بنایا کہ ان کے لئے پرواز ممکن ہو اور فضا کو ایسا بنایا کہ اس میں پرواز اور ٹھہرنا ممکن ہو، اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لئے جائے سکون بنایا یعنی ایسی جگہ کہ جس میں تم سکون حاصل کرو، اور تمہارے لئے جانوروں کی کھالوں کے گھر بنائے جیسا کہ خیمے اور قّبے، کہ سفر کے وقت تم ان کو اٹھانے میں ہلکا پھلکا پاتے ہو اور قیام کے دوران (بھی) اور (بھیڑ) بکری کی اون اور اونٹ کے رؤوں اور بکری کے بالوں سے اپنے گھروں کا سامان بناتے ہو جیسا کہ بچھونے اور چادریں، اور ایسا سامان کہ جس سے تم ایک مدت تک کہ جس میں وہ بوسیدہ ہوں فائدہ حاصل کرتے ہو اللہ تعالیٰ نے اپنی کی ہوئی چیزوں سے جیسا کہ گھر اور درخت اور بادل تمہارے لئے سائے بنائے ظِلال، ظلٌ کی جمع ہے جو تم کو دھوپ کی گرمی سے بچاتے ہیں اور تمہارے لئے پہاڑوں میں پناہ گاہیں بنائیں (اکنان) کِنَّ کی جمع ہے اور وہ وہ ہے کہ جس میں چھپایا جاسکے مثلاً غار اور تہہ خانے اور تمہارے لئے ایسا لباس بنایا کہ جو تم کو گرمی اور سردی سے بچاتا ہے اور ایسا لباس (زرہ) بنایا کہ تم کو تمہاری آپس کی لڑائی میں نیزہ اور تلوار کی زر سے بچائے، جیسا کہ زرہ اور سینہ بند، اسی طرح جس طرح کہ اس نے یہ چیزیں پیدا فرمائیں، وہ دنیا میں بھی تمہاری ضرورت کی چیزیں پیدا فرماکر تمہارے اوپر اپنی نعمتوں کو مکمل فرماتا ہے تاکہ تم اے اہل مکہ فرمانبردار ہوجاؤ یعنی اس کی توحید کے قائل ہوجائو، اگر یہ لوگ اسلام سے اعراض کریں تو اے محمد ﷺ آپ کے ذمہ تو صاف صاف پہنچادینا ہے یعنی واضح طور پر بیان کردینا، اور یہ حکم جہاد کا نازل ہونے سے پہلے کا ہے (یہ لوگ) خدا کی نعمتوں کو تو پہنچانتے ہیں یعنی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں پھر بھی شرک کر کے ان نعمتوں کا انکار کرتے ہیں اور زیادہ تر ان میں ناشکرے ہیں۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : علم ما غابَ ، ای ماغاب عن العباد . قولہ : کلمح البصر، ای کر جع الطرف من اعلی الحدقۃِ الی اسفلھا . قولہ : اوھُوَاقرب اوللتخییر او بمعنی ھل . قولہ : اللجملۃ حال لاتعلمون جملہ ہو کر کُمْ ضمیر سے حال ہے اور شیئًا مفعول بہ ہے۔ قولہ : جعل لکم اس کا عطف اخرجکم پر ہے اس کا فاعل اس میں مستتر ہے۔ قولہ : بُسُطٌ، بستر، فرش، بچھونا (واحد) بساط . قولہ : اکسیۃ، (واحد) کساءً ، چادر۔ قولہ : ظعنکم، ظعن، سفر، کوچ (ف) ظعنًا کوچ کرنا، سفر کرنا۔ قولہ : قباب، یہ قُبّۃٌ کی جمع ہے بمعنی قبہ گنبد۔ قولہ : سرابیل کرتے قمیص، یہ سر بال کی جمع ہے، مطلقًا لباس کے معنی میں بھی مجازاً مستعمل ہے۔ قولہ : الجواش یہ جوش کی جمع ہے، زرہ، بکتر، سربال عام ہے لوہے کی ہو یا کسی اور چیز کی، یا یہاں خود مراد ہے۔ تفسیر وتشریح لا۔۔۔ شیئًا اس میں اشارہ ہے کہ علم انسان کا ذاتی ہنر نہیں ہے، بچہ پیدائش کے وقت کوئی علم و ہنر نہیں رکھتا، پھر اس کی ضرورت کے مطابق اس کو کچھ کچھ علم سکھایا جاتا ہے سب سے پہلے اس کو رونا سکھایا جاتا ہے اس کی یہی صفت اس کی تمام ضرورت مہیا کرتی ہے، اگرچہ بچہ پیدائش کے وقت روئے نہیں تو والدین فکر مند ہوجاتے ہیں، بچہ اپنی تمام ضرورتوں سے والدین کو رو کر ہی آگاہ کرتا ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ الہامی طور پر بچہ کو ماں کی پستانوں سے دودھ چوسنا سکھاتا ہے اس سکھانے میں نہ ماں باپ کا کوئی دخل ہوتا ہے اور نہ کسی معلم، کا یہ فطری تعلیم ہے جو بلا واسطہ ہوتی ہے، کسی معلم کی کیا مجال تھی کہ وہ نومولود بچہ کو منہ چلانا اور مسوڑوں سے پستانوں کو دبا کر دودھ چوسنا سکھا دیتا۔ وجعل۔۔۔ تشکرون، یعنی یہ صلاحیتیں اور قوتیں اللہ تعالیٰ نے اس لئے عطا کی ہیں کہ انسان اعضاء وجوارح کو اس طرح استعمال کرے کہ جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے ان سے اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کرے یعنی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا عملی شکر ادا کرے، حدیث میں آتا ہے، میرا بندہ جن چیزوں کے ذریعہ میرا تقریب حاصل کرتا ہے ان میں سب سے محبوب وہ چیزیں ہیں جو میں نے اس پر فرض کی ہیں علاوہ ازیں وہ نوافل کے ذریعہ بھی میرا تقریب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کا کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، پاؤں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اور مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور مجھ سے کسی چیز سے پناہ طلب کرتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری) اس حدیث کا غلط مفہوم لے کر بعض لوگ اولیاء اللہ کو خدائی اختیارات کا حامل باور کراتے ہیں، حالانکہ حدیث کا واضح اور صحیح مطلب یہ ہے کہ جب بندہ اپنی عبادت اور اطاعت اللہ کے لئے خالص کرلیتا ہے تو اس کا ہر کام صرف اللہ کی رضا کے لئے ہوتا ہے، اپنے کانوں سے وہی بات سنتا اور آنکھوں سے وہی چیز دیکھتا ہے جس کی اللہ نے اجازت دی جس چیز کو ہاتھ سے پکڑتا ہے یا پیروں سے چل کر اس کی طرف جاتا ہے تو وہ وہی چیز ہوتی ہے جس کو شریعت نے روارکھا ہے، وہ ان کو اللہ کی نافرمانی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ صرف اطاعت میں استعمال کرتا ہے۔ من۔۔۔ بارھا، سے ثابت ہوا کہ جانوروں کی کھال اور بال اور اون سب کا استعمال انسان کے لئے جائز ہے اس میں یہ بھی قید نہیں کہ جانورمذبوح ہو یا مردار اور نہ یہ قید ہے کہ اس کا گوشت حلال ہو یا حرام، ان سب قسم کے جانوروں کی کھال دباغت دیکر استعمال کرنا جائز ہے اور بال اور اون پر تو جانور کی موت کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا وہ تو بغیر کسی خاص صنعت و تبدیلی کے جائز ہے امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کا یہی مذہب ہے البتہ خنزیر کی کھال اور اس کے تمام اجزاء ہرحال میں نجس اور ناقابل انتفاع ہیں۔ سرابیل۔۔۔ الحرّ ، یہاں کرتے کی غرض گرمی سے بچانا قرار دیا ہے حالانکہ کرتہ انسان کو گرمی اور سردی دونوں سے بچاتا ہے، اس کا ایک جواب تو قرطبی اور دیگر مفسرین نے یہ دیا ہے کہ قرآن حکیم عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس کے اولین مخاطب عرب ہیں اس میں عرب کی عادات اور ضروریات کا لحاظ رکھ کر کلام کیا گیا ہے عرب ایک گرم ملک ہے وہاں برف باری اور شدید سردی کا تصور ہی مشکل ہے اسلئے گرمی سے بچانے کے ذکر پر اکتفاء کیا گیا۔ (معارف)
Top