Tafheem-ul-Quran - An-Nahl : 77
وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَاۤ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے غَيْبُ : پوشیدہ باتیں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَآ : اور نہیں اَمْرُ السَّاعَةِ : کام ( آنا) قیامت اِلَّا : مگر (صرف) كَلَمْحِ الْبَصَرِ : جیسے جھپکنا آنکھ اَوْ : یا هُوَ : وہ اَقْرَبُ : اس سے بھی قریب اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
اور زمین و آسمان کے پوشیدہ حقائق کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔70 اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں آدمی کی پلک جھپک جائے، بلکہ اس سے بھی کچھ 71کم۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے
سورة النَّحْل 70 بعد کے فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دراصل جواب ہے کفار مکہ کے اس وال کا جو وہ اکثر نبی ﷺ سے کیا کرتے تھے کہ اگر واقعی وہ قیامت آنے والی ہے جس کی تم ہمیں خبر دیتے ہو تو آخر وہ کس تاریخ کو آئے گی۔ یہاں ان کے سوال کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا جارہا ہے۔ سورة النَّحْل 71 یعنی قیامت رفتہ رفتہ کسی طویل مدت میں واقع نہ ہوگی، نہ اس کی آمد سے پہلے تم دور سے اس کو آتے دیکھو گے کہ سنبھل سکو اور کچھ اس کے لیے تیاری کرسکو۔ وہ تو کسی روز اچانک چشم زدن میں، بلکہ اس سے بھی کم مدت میں آجائے گی۔ لہٰذا جس کو غور کرنا ہو سنجیدگی کے ساتھ غور کرے، اور اپنے رویہ کے متعلق جو فیصلہ بھی کرنا ہو جلدی کرلے۔ کسی کو اس بھروسے پر نہ رہنا چاہیے کہ ابھی تو قیامت دور ہے، جب آنے لگے گی تو اللہ سے معاملہ درست کرلیں گے۔۔ توحید کی تقریر کے درمیان یکایک قیامت کا یہ ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ لوگ توحید اور شرک کے درمیان کسی ایک عقیدے کے انتخاب کے سوال کو محض ایک نظری سوال نہ سمجھ بیٹھیں۔ انہیں یہی احساس رہنا چاہیے کہ ایک فیصلے کی گھڑی کسی نامعلوم وقت پر اچانک آجانے والی ہے اور اس وقت اسی انتخاب کے صحیح یا غلط ہونے پر آدمی کی کامیابی و ناکامی کا مدار ہوگا۔ اس تنبیہ کے بعد پھر وہی سلسلہ تقریر شروع ہوجاتا ہے جو اوپر سے چلا آرہا تھا۔
Top