Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 77
وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَاۤ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے غَيْبُ : پوشیدہ باتیں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَآ : اور نہیں اَمْرُ السَّاعَةِ : کام ( آنا) قیامت اِلَّا : مگر (صرف) كَلَمْحِ الْبَصَرِ : جیسے جھپکنا آنکھ اَوْ : یا هُوَ : وہ اَقْرَبُ : اس سے بھی قریب اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
اور اللہ ہی کے لیے خاص ہے غیب آسمانوں کا اور زمین کا، (یہ تو شان ہے اس کے کمال علم کی) اور اس کی صفت قدرت کے کمال کا عالم یہ ہے کہ اس کے یہاں قیامت برپا کرنے کا معاملہ تو محض پلک جھپکنے کے برابر ہے، یا اس سے بھی قریب تر، بلاشبہ اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے،2
155۔ علم غیب خاصہ خداوندی : سو ارشاد فرمایا گیا اور اسلوب حصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا۔ " اور اللہ ہی کیلئے ہے غیب آسمانوں اور زمین کا " پس وہی جانتا ہے کہ مشرکین و مکذبین پر عذاب کب آئے گا۔ اور کس شکل میں آئے گا۔ اور یہ کہ قیامت کی وہ گھڑی کب بپا ہوگی۔ لہذا ان لوگوں کا اس بارے میں جلد بازی سے کام لینا اور اس کے لئے جلدی مچانا اور خواہ مخواہ کی حجت بازی اور قیل وقال کرنا ان کی اپنی حماقت کی دلیل ہے۔ پس پیغمبر کیلئے عالم غیب اور مختار کل ہونے کا عقیدہ رکھنا جس طرح کہ آج کے کلمہ گو مشرک کا کہنا اور ماننا ہے اس طرح کی نصوص صریحہ کے خلاف اور باطل و مردود ہے۔ اور اللہ پاک کی صفات مختصہ میں اس کی مخلوق کا شامل کرنا ہے جو کہ شرک اور ظلم عظیم ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ ہی کیلئے ہے غیب آسمانوں اور زمین کا۔ اور وہی جانتا ہے کہ منکرین و مکذبین پر عذاب کب اور کس شکل میں آئے گا۔ اور قیامت کی وہ ہولناک گھڑی کب آئے گی، اور عقل ونقل کا تقاضایہ ہے کہ اس کیلئے جلدی مچانے کی بجائے اس کے لئے تیاری کی جائے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید وعلی مایحب ویرید۔ 156۔ قیامت کا وقوع پل بھر میں یا اس سے بھی جلدتر : سو ارشاد فرمایا گیا اور قیامت کا معاملہ پل جھپکنے کے برابر یا اس اسے بھی قریب تر ہے کہ پل جھپکنا بھی زمانے کا محتاج ہے کہ یہ ایک زمانی چیز ہے۔ جبکہ اللہ جل جلالہ، ہر طرح کی احتیاج سے پاک وبے نیاز ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔۔ اس کا کام اور اس کی شان تو " کن فیکون " کی ہے کہ جو کہا ہوگیا اور جس کا حکم دیا وہ وجود میں آگیا۔ سو قیامت کا جو معاملہ منکرلوگوں کی نگاہوں میں بہت بڑی چیز ہے وہ اللہ پاک کے حکم وارشاد کے مطابق پل بھر میں یا اس سے کہیں جلد وقوع پذیر ہوجائیگا کہ اس کیلئے محض اس کے حکم وارشاد کی دیر ہوگی اور بس۔ ورنہ وہ ایک ہی جھڑکی کا محتاج ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا۔ (ان ھی الا زجرۃ واحدۃ فاذاھم بالساھرۃ) (النازعات : 13۔ 14) نیز ارشاد فرمایا گیا کہ تم سب لوگوں کا دوبارہ اٹھانا ایک شخص کے اٹھانے کی طرح ہوگا۔ سو ارشاد ہوتا ہے۔ (ماخلقکم ولابعثکم الا کنفس واحدۃ) ۔ (لقمان : 29) سو قیامت کو بپا کرنا لوگوں کے اعتبار سے اگرچہ بہت بڑی چیز ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے اعتبار سے یہ کچھ مشکل نہیں۔ بلکہ وہاں پر اس کیلئے صرف ایک حکم وارشاد کی دیر ہوگی۔ اور بس، سو اس کی شان اور اس کا معاملہ مخلوق سے یکسر مختلف ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top