Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 88
اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یُفْسِدُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَصَدُّوْا : اور روکا عَنْ : سے سَبِيْلِ : راہ اللّٰهِ : اللہ زِدْنٰهُمْ : ہم بڑھا دیں گے انہیں عَذَابًا : عذاب فَوْقَ : پر الْعَذَابِ : عذاب بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يُفْسِدُوْنَ : وہ فساد کرتے تھے
جن لوگوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) خدا کے راستے سے روکا ہم ان کو عذاب پر عذاب دیں گے اس لئے کہ شرارت کیا کرتے تھے۔
88۔ علماء مفسرین نے اس میں بڑا اختلاف کیا ہے کہ وہ عذاب پر عذاب جو زیادہ دیا جاوے گا جس کا ذکر اس آیت میں ہے وہ کس قسم کا عذاب ہوگا لیکن اوپر حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث صحیح مسلم کی روایت سے بیان ہوچکی ہے کہ جو کوئی شخص کوئی راستہ نیک نکالے تو اس نیک راستہ پر جتنے لوگ دنیا میں عمل کریں گے جس قدر اجر ان عمل کرنے والوں کو ملے گا اتنا ہی اجر نیک راستہ نکالنے والوں کو ملے گا اسی طرح جو کوئی شخص دنیا میں کوئی برا طریقہ ایجاد کرے گا تو جس قدر لوگ اس برے طریقہ پر چلیں گے جتنا عذاب ان کو ہوگا اتنا ہی عذاب برا رستہ نکالنے والے پر ہوگا 1 ؎۔ اس حدیث سے صاف معلوم ہوگیا کہ ہر نیکی اور بدی کا ثواب و عذاب اللہ کی بارگاہ میں مقرر ہے اس صورت میں آیت کی تفسیر میں اختلاف کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ اس صحیح مسلم کی حدیث کے معنے و تفسیر آیت کے یہ ہیں کہ جو کوئی خود برا کام کرے گا اس کو جو سزا اس برے کام کی مقرر ہے وہ ملے گی اور جو کوئی برا کام کر کے دوسرے شخص کو کسی نیک کام سے روکے گا اور باز رکھے گا اس باز رہنے والے شخص کو جو سزا ہوگی اس قدر اس باز رکھنے والے کو بھی ہوگی مثلاً زید نے فرض نماز ترک کردی تو تارک الصلوٰۃ کی سزا زید کو ہوگی اور خالد نے خود فرض نماز چھوڑ دی اور حامد کو بہکا کر اس کا روزہ چھڑوا دیا تو خالد کو تارک الصلوٰۃ اور تارک صوم دونوں شخصوں کی سزا ہوگی اور حامد کو فقط تارک صوم کی جو سزا ہے وہی ہوگی صحیح مسلم میں سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دوزخ کی آگ بعضے لوگوں کو ٹخنوں تک جلاوے گی اور بعضوں کو گھٹنوں تک اور بعضوں کو کمر تک اور بعضوں کو گردن تک 2 ؎ سوا اس کے اور صحیح حدیثوں میں ہے جن کا حاصل یہ ہے کہ اہل جنت اور اہل دوزخ کے درجے ہیں اور یہ درجہ ہر نیکی اور بدی کی جزا و سزا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ خود بہکنا اور دوسروں کو بہکانا یہ دو گناہ ہیں دونوں گناہ ہونگے گنہگاروں کو دوہری سزا دی جاوے گی اور اس دوہری سزا کے مناسب حال و دوزخ کے درجہ میں ایسے لوگوں کو رکھا جاوے گا۔ 1 ؎ صحیح مسلم ص 341 ج 2 باب من سن سنتہ سنتہ او سینتہ الخ۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 502 باب صفتہ النار واہلہا۔
Top