Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا
وَقَضَيْنَآ : اور صاف کہ دیا ہم نے اِلٰى : طرف۔ کو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل فِي الْكِتٰبِ : کتاب لَتُفْسِدُنَّ : البتہ تم فساد کروگے ضرور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مَرَّتَيْنِ : دو مرتبہ وَلَتَعْلُنَّ : اور تم ضرور زور پکڑوگے عُلُوًّا كَبِيْرًا : بڑا زور
اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل سے کہہ دیا تھا کہ تم زمین میں دو دفعہ فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی کرو گے
4۔ 8:۔ اللہ پاک نے بنی اسرائیل کے حال سے آنحضرت ﷺ کو خبردی کہ اللہ تعالیٰ نے توریت میں اس بات کی خبر بنی اسرائیل کو دیدی تھی کہ وہ دو بار دنیا میں فساد برپا کریں گے اور دونوں دفعہ ذلیل و خوار ہوں گے اور ویسا ہی ہوا۔ ایک دفعہ انہوں نے توریت کی مخالفت کی اور ذکریا (علیہ السلام) کو ان لوگوں نے قتل کیا اللہ پاک نے اپنے قوی اور زور آور بندوں کو ان پر مقرر اور مسلط کردیا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ جالوت اور اس کا لشکر تھا اس نے یہود کے علماء کو چن چن کر قتل کر ڈالا اور توریت کو آگ میں جلا دیا اور مسجد اور گھروں میں گھس گھس کر لوگوں کو قتل و غارت کرنا شروع کیا اور ستر ہزار آدمی انہوں نے قید کرلیے جاسو خلل الدیار کے معنے یہ ہیں کہ شہروں میں گھس گھس کر اور ہر گلی کوچہ میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بنی اسرائیل کو تباہ وبرباد کیا اور یہ وعدہ اللہ پاک کا ضرور ہونے والا تھا اس میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں کہ رک جاتا پھر اللہ پاک نے یہ بات فرمائی کہ جب بنی اسرائیل اپنے کردار بد سے تائب ہوئے اور فساد کرنے سے باز آئے تو ہم نے ان کی باری پھیری اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اٹھایا انہوں نے جالوت کو قتل کیا بنی اسرائیل صاحب مال دولت ہوئے اور ان کی اولاد دوبارہ بڑھی ان کے لشکر پھر فراہم ہونے لگے پھر وہی قوت ان کو حاصل ہوگئی پہلی مرتبہ ان کے بہت سے لوگ قتل ہوئے تھے اور کثیر التعداد آدمی گرفتار ہوئے تھے جس کی وجہ سے ان کی حمیت میں کمی ہوگئی تھی اور بہت سے مال ضائع وبرباد ہوگئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا فضل کیا اور دوبارہ از سرنو وہی سازو سامان ان کے لیے مہیا کردیا لیکن ان کو یہ بات جتلا دی تھی کہ دیکھو یاد رکھو اب بھی اگر ٹھیک راہ پر رہے اور نیکو کار بنے رہے تو تمہاری ہی جان کو اس سے فائدہ پہنچے گا تم کبھی ذلیل و خوار نہ ہوگے اور نہ کبھی تباہ وبرباد ہوگے اور اگر پھر اگلی سی حرکت کی اور وہی فساد برپا کیا تو پھر تمہاری جان کے لالے پڑجائیں گے یہ خطاب اگرچہ بنی اسرائیل کو تھا مگر کفار قریش بھی اس میں شامل ہیں کہ اگر تم بھی ویسا ہی فساد کرو گے اور کتاب اللہ کی مخالفت پر آمادہ ہو کر نبی برحق حضرت محمد ﷺ کو جھٹلاؤ گے تو اس کا وبال تمہاری گردن پر پڑے گا بہرحال بنی اسرئیل پھر بھی راہ راست پر نہیں آئے اور پھر وہی فساد اٹھانے لگے اور حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کو ایک عورت کی فرمائش سے ایک بادشاہ نے جو بنی اسرائیل کی قوم میں سے تھا قتل کروا ڈالا۔ حضرت یحییٰ کا نام انجیل میں یوحنا ہے اور یہ قصہ انجیل میں مذکور ہے پھر تو اللہ پاک نے فارس کے لوگوں میں سے ایک شخص بخت نصر کو ان پر مسلط کردیا اس نے وہ قتل و غارت کیا کہ پناہ بخدا اس نے بیت المقدس کو ویران کردیا اور جب تک اس کا غلبہ رہا یہی برتاؤ بنی اسرائیل کے ساتھ کرتا رہا پھر اللہ پاک نے بنی اسرائیل کو فرمایا کہ تمہارا رب برسر رحم آگیا ہے اگر راہ راست پر آگئے تو پھر وہی شان و شوکت تمہیں دے گا اور پھر وہی دولت تمہیں مل جائے گی۔ ضحاک نے کہا ہے کہ یہ رحمت جس کا اللہ پاک نے بنی اسرائیل سے وعدہ کیا تھا جناب سرور کائنات فخر موجودات صلعم ہیں اور یہ بھی اللہ پاک نے انہیں جتلا دیا تھا کہ اگر پھر تیسری دفعہ وہی کام کرو گے اور وہی فساد اٹھاؤ گے تو یاد رکھو ہم وہی عذاب تم پر نازل کریں گے ہمارے ہاتھ سے تمہیں رہائی نہیں مل سکتی اہل تاریخ کہتے ہیں کہ تیسری بار پھر انہوں نے وہی حرکت کی جو انہیں لائق نہیں تھی کہ ان کی کتاب میں جو کچھ آنحضرت ﷺ کی ثناو صفت تھی اسے بدل ڈالا اور آنحضرت ﷺ کو جھٹلایا اس واسطے اللہ پاک نے بھی وہی برتاؤ ان کے ساتھ کیا اور وہی بربادی ان پر نازل کی کہ آنحضرت ﷺ اور اصحاب رسول صلعم کے ہاتھوں سے یہ بہت ہی ذلیل و خوار ہوئے۔ خود قتل ہوئے اور ان کی عورتیں اور بچے لونڈیاں اور غلام بنائے گئے ان کے مال و دولت غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ جزیہ ان کی بربادی بیان فرما کر آخرت کی سزا کا ذکر فرمایا کہ ان کفار کا حال دنیا میں جو کچھ ہوا وہ ہوا آخرت میں بہت ہی برا گھر ان کے واسطے تیار ہے وہاں جہنم کے قید خانہ میں یہ قید رہیں گے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری کی روایت ایک جگہ گزرچکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو مہلت دیتا ہے جب مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو پھر ان کو کسی ایسے عذاب میں پکڑ لیتا ہے جس سے وہ بالکل ہلاک ہوجاتے ہیں 1 ؎۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہود کی مہلت اور مہلت کے بعد خرابی کا حال بیان کر کے قریش کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ اگر تم لوگ بھی مہلت کے زمانہ میں اپنی نافرمانی سے باز نہ آئے تو وہی انجام تمہارا بھی ہوگا جو یہود کا ہوا۔ اللہ سچا ہے اور اللہ کا وعدہ سچا ہے اس وعدہ کا ظہور فتح بدر اور فتح مکہ کے وقت ہوا۔ جس کا قصہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایتوں کے حوالہ سے کئی جگہ گزر چکا ہے۔ 1 ؎ تفسرا ہذا جلد دوم ص 205 بحوالہ صحیح بخاری ص 678 ج 6 وکذلک اخذربک الخ۔
Top