Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 64
وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ١ۚ لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَ مَا خَلْفَنَا وَ مَا بَیْنَ ذٰلِكَ١ۚ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّاۚ
وَمَا : اور ہم نَتَنَزَّلُ : نہیں اترتے اِلَّا : مگر بِاَمْرِ : حکم سے رَبِّكَ : تمہارا رب لَهٗ : اس کے لیے مَا بَيْنَ اَيْدِيْنَا : جو ہمارے ہاتھوں میں ( آگے) وَمَا : اور جو خَلْفَنَا : ہمارے پیچھے وَمَا : اور جو بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے رَبُّكَ : تمہارا رب نَسِيًّا : بھولنے والا
اور فرشتوں نے پیغمبر کو جواب دیا کہ ہم تمہارے پروردگار کے حکم کے سوا اتر نہیں سکتے جو کچھ ہمارے آگے اور جو پیچھے ہے اور جو ان کے درمیان ہے سب اسی کا ہے اور تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے
64۔ 65:۔ صحیح بخاری میں 1 ؎ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت سے جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک دفعہ وحی لے کر آنے میں جبرئیل (علیہ السلام) کو کچھ دیر لگی اس کے بعد جب وحی لے کر جبرئیل (علیہ السلام) آئے تو اللہ کے رسول ﷺ نے ان سے دیر کی شکایت کی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر اس شکایت کا یہ جواب جبرئیل (علیہ السلام) کو بتایا کہ اللہ کے فرشتے آسمان پر سے زمین پر اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نہیں اتر سکتے جبرئیل کی طرف کا یہ کلام قرآن شریف میں اس طرح داخل ہے جس طرح ایاک نعبد وایاک نستعین بنی آدم کی طرف کا کلام قرآن شریف میں داخل ہے پھر فرمایا آسمان و زمین میں جب کوئی چیز اللہ کے علم سے باہر نہیں ہے تو وحی میں جو کبھی دیر ہوجاتی ہے وہ کسی بھول چوک کے سبب سے نہیں ہوتی بلکہ کسی مصلحت سے ہوتی ہے مثلا جیسے روح اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے قصہ کی وحی میں وعدہ کے وقت انشاء اللہ کا لفظ یاد رکھنے کی مصلحت سے دیر ہوئی پھر فرمایا جب اللہ تعالیٰ ایسا بےنظیر بادشاہ ہے کہ نہ آسمان و زمین میں کوئی ہم نام ہے نہ اس کی سی صفتیں اور کسی میں پائی جاتی ہیں اور آسمان و زمین میں کوئی چیز اس کے حکم سے باہر نہیں تو خالص اسی کی عبادت زیبا ہے اس کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا بڑے وبال کی بات ہے پھر فرمایا جاڑے کے وضو روزہ کی پیاس کی تکلیف یا اسی طرح کی اور کوئی تکلیف عبادت الٰہی میں پیش آوے تو اس پر صبر کرنا چاہیے کیونکہ صبر کا اجر بہت بڑا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ دینی عبادت میں آدمی کو طرح طرح کی تکلیفیں پیش آتی رہتی ہیں ! اسی واسطے عبادت کے ساتھ ان تکلیفوں پر صبر کرنے کا ذکر فرمایا صحیح مسلم کے حوالہ سے صہیب رومی ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے 2 ؎ جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے صبر کو ایمان کی نشانی فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دین کے کاموں میں جو تکلیفیں پیش آتی ہیں ان پر صبر کرنا ایمان دار آدمی کا کام ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 691 ج 6۔ 2 ؎ مثلا ص 452 ج 2۔
Top