Urwatul-Wusqaa - Maryam : 64
وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ١ۚ لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَ مَا خَلْفَنَا وَ مَا بَیْنَ ذٰلِكَ١ۚ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّاۚ
وَمَا : اور ہم نَتَنَزَّلُ : نہیں اترتے اِلَّا : مگر بِاَمْرِ : حکم سے رَبِّكَ : تمہارا رب لَهٗ : اس کے لیے مَا بَيْنَ اَيْدِيْنَا : جو ہمارے ہاتھوں میں ( آگے) وَمَا : اور جو خَلْفَنَا : ہمارے پیچھے وَمَا : اور جو بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے رَبُّكَ : تمہارا رب نَسِيًّا : بھولنے والا
اور ہم نہیں اترتے مگر تمہارے پروردگار کے حکم سے جو کچھ ہمارے سامنے ہے جو کچھ ہمارے پیچھے گزر چکا ہے اور جو کچھ ان دونوں وقتوں کے درمیان ہوا سب اسی کے حکم سے ہے اور تمہارا پروردگار ایسا نہیں کہ بھول جانے والا ہو
فرشتوں کی معذرت کہ ہم اپنی مرضی سے نہیں اترتے بلکہ حکم الہی کے تحت اترتے ہیں : 64۔ فرشتہ کیا ہے ؟ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ فرشتہ سے مراد اور قوت ہے ، جس طرح سارے قوی مخلوق ہیں اسی طرح یہ بھی مخلوق ہیں ‘ جس طرح کسی بھی طاقت وقوت کا اپنا کوئی ارادہ نہیں ہوتا بالکل اسی طرح ان کا بھی اپنا کوئی ارادہ نہیں ہوتا ‘ جس طرح ہر طاقت وقوت کسی دوسرے وجود کی مرہون منت ہے فرشتہ بھی ہے ‘ جس طرح ہر طاقت وقوت کسی دوسری طاقت کو جنم نہیں دے سکتی فرشتہ بھی نہیں دے سکتا ، جس طرح ہر طاقت وقوت فی نفسہ مادی چیز نہیں فرشتہ بھی نہیں لیکن جب تک اس کو مثال سے نہ سمجھا جائے شاید تفہیم ممکن نہیں ہے ، اس کی مثال خود انسان بلکہ ہر جاندار ہستی ہے ، غور کیجئے کہ مخلوقات کی دو قسمیں ہیں ‘ ذی روح اور غیر ذی روح ، ذی روح مخلوقات کے اکثر افعال وحرکات اس کی روح کی ارادی قوت کی وساطت سے انجام پاتے ہیں وہی روح اس کے ہاتھ پاؤں اور تمام اعضاء بلکہ ہر عضو کے ایک ایک رگ وریشہ پر حکمران اور مسلط ہے ، بایں ہمہ وہ روح اصول مقررہ کے تحت ہی اعضاء سے کام لیتی ہے اور ان اصولوں سے باہر نہیں جاتی اسی طرح غیر ذی روح اشیاء میں ابروباد سے لے کر دریا ‘ پہاڑ ‘ چاند اور سورج تک پر ارواح مقرر ہیں جو ان اشیاء سے رب کریم کے اصول مقررہ کے مطابق یکساں افعال وحرکات کا صدور کراتی ہیں جس طرح ہماری روح اپنے اعضا اور اعضا کے ذریعہ سے مادہ میں جو تغیر پیدا کرتی ہے وہ اشیاء کے مقررہ خواص و طبائع کے سہارے پر کرتی ہے اسی طرح ملائکہ بھی انہی مقررہ خواص و طبائع کے ذریعہ اپنے مفروضہ فرائض انجام دیتے ہیں۔ زیر نظر آیت میں جبریل (علیہ السلام) نے اپنی اور اپنے ساتھی فرشتوں کی حیثیت واضح فرمائی ہے کہ ہم اپنے اختیار سے کچھ نہیں کرتے اور نہ ہی کچھ کرنے کے مجاز ہیں ہمارا کام صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری ہے اس کی ضرورت کیا پیش آئی ؟ ضروری یہ پیش آئی کہ حق و باطل کی کشمکش کے اس مرحلہ میں مخالفین کے بالمقابل نبی اعظم وآخر ﷺ کے لئے واحد سہارا وحی الہی کا سہارا تھا ‘ اسی آسمانی کمک سے مشکلات میں آپ ﷺ کو تقویت و راہنمائی بھی حاصل ہوتی تھی اور اسی کے ذریعہ سے مخالفین کے نت نئے اعتراضات کا جواب اور ان کے اٹھائے ہوئے فتنوں کا توڑ بھی ہوتا تھا اس وجہ سے قدرتی طور نبی کریم ﷺ کو نہایت بےچینی کے ساتھ جبرئیل (علیہ السلام) کا جو وحی لانے کا ذریعہ تھے انتظار رہتا ۔ آپ ﷺ کی یہ بےچینی کے ساتھ جبریل (علیہ السلام) کا جو وحی لانے کا ذریعہ تھے انتظار رہتا ۔ آپ ﷺ کی یہ بےچینی حالات کا لازمی تقاضا تھی ، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں جگہ جگہ آپ ﷺ کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ اپنے موقف پر ڈٹے رہو ، جلدی نہ کرو ‘ جس راہنمائی اور مدد کی ضرورت ہوگی وہ اپنے وقت پر اللہ تعالیٰ نازل فرمائے گا اس جگہ بھی جبرئیل (علیہ السلام) کی زبان سے یہی مضمون ادا ہوا ہے گویا جبریل (علیہ السلام) کی طرف سے نبی اعظم وآخر ﷺ کی خدمت میں ایک نوع کی معذرت ہے کہ اگر ہم جلدی جلدی آپ کے شوق وانتظار کی تسکین کے لئے وحی لے کر نہیں اترتے تو اس میں ہماری کسی کوتاہی کو دخل نہیں ہے بلکہ ہمارا اترنا تمام تر اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت ہے جب تک اس کا حکم نہ ہو نہ ہم اترسکتے ہیں اور نہ ہی ہم آپ کے پاس کوئی وحی لاسکتے ہیں اس معاملہ میں ہمیں کوئی دخل نہیں ہے ہم صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری پر مامور ہیں۔ اس سے حضرت جبریل امین (علیہ السلام) اور دوسرے تمام زمرہ ملائکہ کی حیثیت واضح ہوگئی کہ ان کے تمام پیش وعقب اور جو کچھ ان کے مابین ہے سب پر اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور اس کا مکمل کنٹرول ہے ، مجال نہیں کہ کوئی سرمو اپنے دائرہ سے تجاوز کرسکے یا کوئی اقدام اپنے ارادے سے کرسکے کیونکہ ارادہ ان کے ہاں سے ہی نہیں ایک طرف نبی اعظم وآخر ﷺ کو تسلی دی گئی اور دوسرے طرف مشرکین عرب کی حماقت پر کاری ضرب لگا دی گئی جو فرشتوں کی پوجا کرتے تھے اور انکو حاجت روا اور مشکل کشا جانتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے کہ روز اللہ کی ان بیٹیون سے سفارش کا کام لے کر اپنی کوتاہیاں معاف کرا لیں گے ، ان بیوقوقوں کو جبرئیل کا یہ بیان سنا کر آگاہ کردیا گیا کہ جب رب ذوالجلال والاکرام کی بارگاہ میں جبرئیل امین (علیہ السلام) کی بےبسی کا یہ عالم ہے تو دوسرے وہاں کیا کرلیں گے ، فرمایا گیا کہ ” ہم نہیں اترتے مگر تمہارے پروردگار کے حکم سے جو کچھ ہمارے سامنے جو کچھ ہمارے پیچھے گزر چکا ہے اور جو کچھ ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے سب اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے ہے اور تمہارا پروردگار ایسا نہیں کہ بھول جانے والا ہو ۔ “ دیر ہوتی ہے تو اس کے حکم کے تحت ‘ آتے ہیں تو اس کے حکم کے تحت اور نہیں اور نہیں تو اس کے حکم کے تحت کیونکہ ہم یعنی فرشتے صاحب ارادہ نہیں ہیں ۔
Top