Tafseer-e-Usmani - Maryam : 64
وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ١ۚ لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَ مَا خَلْفَنَا وَ مَا بَیْنَ ذٰلِكَ١ۚ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّاۚ
وَمَا : اور ہم نَتَنَزَّلُ : نہیں اترتے اِلَّا : مگر بِاَمْرِ : حکم سے رَبِّكَ : تمہارا رب لَهٗ : اس کے لیے مَا بَيْنَ اَيْدِيْنَا : جو ہمارے ہاتھوں میں ( آگے) وَمَا : اور جو خَلْفَنَا : ہمارے پیچھے وَمَا : اور جو بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے رَبُّكَ : تمہارا رب نَسِيًّا : بھولنے والا
اور ہم نہیں اترتے مگر حکم سے تیرے رب کے اسی کا ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے اور جو اس کے بیچ میں ہے اور تیرا رب نہیں ہے بھولنے والاف 7
7 ایک مرتبہ جبرائیل (علیہ السلام) کئی روز تک نہ آئے۔ آپ منقبض تھے۔ کفار نے کہنا شروع کیا کہ محمد ﷺ کو اس کے رب نے خفا ہو کر چھوڑ دیا ہے۔ اس طعن سے آپ اور زیادہ دل گیر ہوئے۔ آخر جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے۔ آپ نے اتنے روز تک نہ آنے کا سبب پوچھا۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا " مَایَمْنَعُکَ اَنْ تَزُوْرَنَا اَکْثَرَ مِمَّا تَزُوْرُنَا " (جتنا تم آتے ہو اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے ؟ ) اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو سکھلایا کہ جواب میں یوں کہو۔ (وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ ) 19 ۔ مریم :64) یہ کلام ہوا اللہ کا جبرائیل کی طرف سے۔ جیسا " اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ " میں ہم کو سکھلایا ہے۔ حاصل جواب یہ ہے کہ ہم خالص عبد مامور ہیں۔ بدون حکم الٰہی ایک پر نہیں ہلا سکتے۔ ہمارا چڑھنا اترنا سب اس کے حکم و اذن کے تابع ہے۔ وہ جس وقت اپنی حکمت کاملہ سے مناسب جانے ہم کو نیچے اترنے کا حکم دے۔ کیونکہ ہر زمانہ (ماضی، مستقبل، حال) اور ہر مکان (آسمان زمین اور ان کے درمیان) کا علم اسی کو ہے اور وہ ہی ہر چیز کا مالک و قابض ہے۔ وہ ہی جانتا ہے کہ فرشتوں کو پیغمبر کے پاس کس وقت بھیجنا چاہیے۔ مقرب ترین فرشتہ اور معظم ترین پیغمبر کو بھی یہ اختیار نہیں کہ جب چاہے کہیں چلا جائے یا کسی کو اپنے پاس بلالے خدا کا ہر کام برمحل اور بروقت ہے۔ بھول چوک یا نسیان و غفلت کی اس کی بارگاہ میں رسائی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جبرائیل کا جلد یا بدیر آنا بھی اس کی حکمت و مصلحت کے تابع ہے۔ (تنبیہ اول) " ہمارے آگے پیچھے " کہا آسمان و زمین کو۔ اترتے ہوئے زمین آگے، آسمان پیچھے، چڑھتے ہوئے وہ پیچھے یہ آگے۔ اور اگر " آگے پیچھے " سے تقدم و تاخر زمانی مراد ہو تو زمانہ مستقبل آگے آنے والا اور زمانہ ماضی پیچھے گزر چکا ہے اور زمانہ حال دونوں کے بیچ میں واقع ہے۔ (تنبیہ دوم) پہلے فرمایا تھا کہ جنت کے وارث اتقیاء (خدا سے ڈرنے والے پرہیزگار) ہیں۔ اس آیت میں بتلا دیا کہ ڈرنے کے لائق وہ ہی ذات ہوسکتی ہے جس کے قبضہ میں تمام زمان و مکان ہیں۔ اور جس کے حکم و اجازت کے بدون بڑے سے بڑا فرشتہ بھی پر نہیں ہلا سکتا۔ انسان کو چاہیے اگر وہ جنت کی میراث لینا چاہتا ہے کہ فرشتوں کی طرح حکم الٰہی کا مطیع و منقاد بن جائے اور ادھر بھی اشارہ ہوگیا کہ جو خدا اپنے مخلص بندوں کو یہاں نہیں بھولتا، وہاں بھی نہیں بھولے گا۔ ضرور جنت میں پہنچا کر چھوڑے گا۔ ہاں ہر چیز کا ایک وقت ہے جنت میں ہر ایک کا نزول بھی اپنے اپنے وقت پر ہوگا۔ اور جیسے یہاں پیغمبر کے پاس فرشتے حکم الٰہی کے موافق وقت معین پر آتے ہیں۔ جنت میں جنتیوں کی غذائے روحانی و جسمانی بھی صبح و شام اوقات مقررہ پر آئے گی۔
Top