Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 33
لَا یَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًاۘ
لَا يَمْلِكُوْنَ : وہ اختیار نہیں رکھتے الشَّفَاعَةَ : شفاعت اِلَّا : سوائے مَنِ اتَّخَذَ : جس نے لیا ہو عِنْدَ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے پاس عَهْدًا : اقرار
(تو لوگ) کسی کی سفارش کا اختیار نہ رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو
87۔ 94:۔ مشرکین مکہ کہتے تھے کہ اول تو قیامت قائم ہی نہ ہوگی اور ہم کسی عذاب میں پکڑے گئے تو جن نیک لوگوں کی مورتوں کی ہم پوجا کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے سفارش کر کے ہم کو اس عذاب سے چھڑا لیں گے۔ مشرکین مکہ کی اس بات کا جواب اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں یہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کی سفارش کا ہر کسی کو مالک اور مختار نہیں بنایا ہے جو یہ مشرک جس سے چاہیں گے اپنی سفارش کرلیں گے یہ شفاعت تو اللہ کے فرشتے اس کے رسول اور نیک لوگ ایسے لوگوں کے حق میں کریں گے جو اللہ کی وحدانیت اس کے رسولوں کو سچا جاننے کے عہد پر قائم ہوں گے لیکن سوائے شرک کے اور گناہوں میں عمر بھر گرفتار رہ کر بغیر توبہ کے مرجائیں گے۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوسعید خدری کی روایت سے شفاعت کی ایک بہت بڑی حدیث ہے 1 ؎۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ شفاعت کرنے والے اللہ کے فرشتے اس کے رسول اور نیک لوگ ہوں گے اور یہ شفاعت ایسے لوگوں کے حق میں ہوگی جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا اس حدیث سے شفاعت کرنے والوں کا اور جن کے حق میں شفاعت کی جائے گی ان کا حال اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ صحیح بخاری اور مستدرک حاکم میں ابوہریرہ سے روایت ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ آزر کی شفاعت کرنی چاہیں گے مگر منظور نہ ہوگی اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ مشرک کے حق میں کسی کی شفاعت منظور نہ ہوگی جس عہد کا ذکر ان آیتوں میں ہے یہ شرک سے بچنے کا وہی عہد ہے جو تمام اولاد آدم سے عالم ارواح میں لیا گیا ہے۔ پھر جو لوگ اس عہد کے یاد دلانے والے قرآن اور رسول کو جھٹلاتے ہیں رات دن بت پرستی کے شرک میں گرفتار ہیں فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہہ کر اس کو صاحب اولاد ٹھہراتے ہیں اور نظام الٰہی کے برخلاف قیامت کے دن شفاعت کی امید رکھتے ہیں یہ ان لوگوں کی بڑی نادانی ہے کیونکہ یہ ان کو جتلا دیا گیا ہے کہ جن نیک لوگوں کی مورتوں کو یہ مشرک پوجتے ہیں وہ نیک لوگ قیامت کے دن ان پوجا کرنے والوں کی صورت سے بیزار ہوجائیں گے اور یہ پتھر کی مورتیں دوزخ کا ایندھن بنادی جائیں گی پھر وہ کونسا شفاعت کرنے والا ہے جس کی شفاعت کے بھروسہ پر یہ لوگ شرک سے باز نہیں آتے۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کو صاحب اولاد ٹھہرانے کا کلمہ جو یہ لوگ زبان پر لاتے ہیں یہ ایسے غضب کا کلمہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو اپنی بردباری سے وقت مقررہ تک دنیا کا چلانا منظور نہ ہوتا تو اللہ کے حکم سے ابھی اس غضب کے کلمہ کے وبال میں ان لوگوں پر آسمان پھٹ پڑے یا زمین پاش پاش ہوجائے ‘ یا پہاڑ گر پڑتے فرمایا اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور عظمت کے آگے سب اس کے حقیر بندے ہیں یہ لوگ اپنے غلاموں سے تو رشتہ ناتا جوڑنا نہیں چاہتے پھر اللہ کی شان میں ایسا گستاخی کا کلمہ کیوں زبان سے نکالتے ہیں کہ اس کے حقیر بندوں کے ساتھ اس کا رشتہ ناتا ہے۔ پھر فرمایا اچھے برے سب کی گنتی اللہ تعالیٰ کو معلوم اور لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے اس گنتی کے موافق جب ہر ایک شخص قیامت کے دن بےیارو بےمددگار اپنے عملوں کی جواب دہی کے لیے اللہ تعالیٰ کے روبرو اکیلا کھڑا ہوگا تو اس وقت اس غضب کے کلمہ کی سزا ان لوگوں کو سنا دی جائے گی۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر بردبار کون ہوسکتا ہے کیوں کہ لوگ اس کو صاحب اولاد ٹھہراتے ہیں اور وہ ان کے ہر طرح کے آرام اور راحت کے انتظام میں خلل نہیں ڈالتا 2 ؎۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ وقت مقررہ تک دنیا کا انتظام اللہ تعالیٰ کی بردباری کے سبب سے چل رہا ہے ورنہ شرک ایسے غضب کی چیز ہے جس سے آسمان زمین اور پہاڑ سب کانپتے ہیں اور آسمان پھٹ جانے کو اور زمین ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو اور پہاڑ گر پڑنے کو تیار اور حکم کے منتظر ہیں۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 1107 ج 2 باب قول اللہ وجوہ یومئذ ناضرۃ الخ۔ 2 ؎ صحیح بخاری ص 1097 ج 2 باب قول اللہ انما نا اللہ آلایہ و صحیح مسلم ص 674 ج 2 باب الکفار بر وایت ابوموسیٰ اشعری ؓ ۔
Top