Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 87
لَا یَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًاۘ
لَا يَمْلِكُوْنَ : وہ اختیار نہیں رکھتے الشَّفَاعَةَ : شفاعت اِلَّا : سوائے مَنِ اتَّخَذَ : جس نے لیا ہو عِنْدَ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے پاس عَهْدًا : اقرار
وہ سفارش کے مالک نہ ہوں گے مگر جس نے رحمان کے ہاں کوئی عہد لے لیا۔
ۘلَا يَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ۔۔ : یعنی شفاعت کا حق دار وہ ہوگا جسے رحمٰن کے ہاں عہد نجات حاصل ہو۔ اس عہد سے مراد کلمۂ شہادت کا اقرار ہے۔ یہ تفسیر ابن عباس اور ابن مسعود ؓ سے ثابت ہے۔ (ابن کثیر مع حاشیہ حکمت بن بشیر) ایک حدیث میں پنجگانہ نماز کی پابندی کو بھی عہد قرار دیا گیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اَلْعَھْدُ الَّذِيْ بَیْنَنَا وَبَیْنَھُمُ الصَّلَاۃُ فَمَنْ تَرَکَھَا فَقَدْ کَفَرَ) [ مسند أحمد : 5؍346، ح : 23001۔ ترمذي : 2621۔ ابن ماجہ : 1079، عن بریدۃ ؓ و صححہ الألباني ] ”وہ عہد جو ہمارے اور ان (مشرکین) کے درمیان ہے نماز ہے، جس نے اسے ترک کردیا تو وہ بلاشبہ کافر ہوگیا۔“ معلوم ہوا کہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب ایمان والوں کی تو شفاعت ہوگی مگر کافر کی کوئی شفاعت نہیں کرسکے گا۔ پس ”ۘلَا يَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ“ کے معنی یہ ہیں کہ شفاعت کے مستحق صرف وہی لوگ ہوں گے جنھوں نے رحمٰن کے ہاں عہد حاصل کر رکھا ہے، کفار نہیں۔ اس معنی کی شاہد کئی آیات ہیں۔ دیکھیے سورة مدثر (48) ، شعراء (100، 101) ، مومن (18) ، انبیاء (28) اور دوسری آیات۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب مجرمین کے حق میں کوئی شفاعت نہیں کرسکے گا تو وہ خود دوسروں کے حق میں شفاعت کا اختیار بالاولیٰ نہیں رکھیں گے۔ دوسرا مطلب آیت کا یہ ہے کہ شفاعت کا اختیار صرف اسی کو ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ شفاعت کی اجازت دے گا، کوئی نبی یا فرشتہ اپنی مرضی سے کسی کی شفاعت نہیں کرسکے گا، فرمایا : (مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ) [ البقرۃ : 255 ] ”کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔“ اس آیت میں تمام مشرکین کو خبردار کردیا گیا ہے کہ مشرک بت پرست ہوں یا قبر پرست، زندہ پرست ہوں یا مردہ پرست، ہر قسم کی شفاعت سے محروم رہیں گے۔ گویا یہ ”لِّيَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا“ کا جواب ہے۔ (کبیر، شوکانی، شنقیطی)
Top