Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 11
وَ كَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّ اَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ
وَكَمْ قَصَمْنَا : اور ہم نے کتنی ہلاک کردیں مِنْ : سے قَرْيَةٍ : بستیاں كَانَتْ : وہ تھیں ظَالِمَةً : ظالم وَّاَنْشَاْنَا : اور پیدا کیے ہم نے بَعْدَهَا : ان کے بعد قَوْمًا : گروہ۔ لوگ اٰخَرِيْنَ : دوسرے
اور ہم نے بہت سی بستیوں کو جو سمتگار تھیں ہلاک کرمارا اور ان کے بعد اور لوگ پیدا کردیئے
11۔ 15:۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قریش کی مشاورتوں کا ذکر فرمایا تھا اور ان کو جو شب ہے آنحضرت ﷺ کی نبوت میں تھے اس کے جواب دیئے تھے اور قیامت اور حساب و کتاب کا وقت قریب آن لگنے سے ان کو ڈرایا تھا۔ ان آیتوں میں حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانہ تک جو لوگ اور بستیاں رسولوں کی مخالفت کے سبب سے غارت ہوگئی تھیں ‘ ان کا ذکر فرمایا ہے تاکہ قریش کو عبرت ہو کر رسولوں کی مخالفت کا نتیجہ ان کے حق میں بھی یہی پیش آوے گا جو پچھلی امتوں کو پیش آیا ‘ پچھلی قومیں جو ہلاک ہوئیں ‘ ان قوموں میں سب سے آخری جس قوم کا ذکر ان آیتوں میں ہے کہ وہ اللہ کا عذاب دیکھ کر بھاگے اور بھاگتے وقت ان سے کہا گیا کہ اب کیوں بھاگتے ہو جن مکانوں میں عیش و آرام کرتے تھے وہیں کیوں نہیں ٹھہرتے ‘ تفسیر ابن ابی حاتم اور تفسیر ابن مردویہ میں اس قصہ کی پوری تفصیل مجاہد کے قول کے موافق ہے 1 ؎۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے درمیانی زمانہ میں یمن کے ملک میں ایک شعیب ( علیہ السلام) نام کے نبی تھے ‘ جب ان کی قوم نے ان کو جھٹلایا اور شہید کر ڈالا ‘ تو بخت نصر نے اس قوم کے اوپر چڑھائی کی ‘ اس وقت دو دفعہ تو یہ یمن کے لوگ بخت نصر کی قوم پر غالب ہوئے جب تیسری دفعہ بخت نصر بابلی اپنی ذات سے بڑی بھاری فوج لے کر آیا ‘ اس وقت یہ یمنی لوگ بھاگے اور فرشتوں نے طعن کے طور پر ان یمنی لوگوں سے یہ کہا کہ اب کیوں بھاگتے ہو اپنی آرام گاہوں میں اب کیوں نہیں ٹھہرتے اور اس طعن کے بعد فرشتوں نے بابلی لوگوں کے سامنے ان یمنی لوگوں کو گھیرا اور سب قتل ہوگئے۔ قیامت کی نشانیاں ظاہر ہونے کے بعد یا موت کا یقین ہوجانے کے بعد یا عذاب الٰہی آنکھوں کے سامنے آجانے کے بعد کوئی ایمان لائے یا توبہ کرے تو ایسے آخری وقت کا ایمان اور آخری وقت کی توبہ قبول نہیں ہے کیونکہ ایسے وقت پر آدمی کے ذمہ شریعت کی پابندی باقی نہیں رہتی اس لیے ان یمنی لوگوں نے فرعون کی طرح آخری وقت پر ایمان لانے کا جو اقرار کیا ‘ وہ اقرار کام نہ آیا۔ رہا حضرت یونس ( علیہ السلام) کی قوم کا آخری وقت کا ایمان اس کا جواب خود صحاب وحی ﷺ نے دے دیا ہے کہ ان کا ایمان عذاب کے خوف سے مجبوری کے طور پر نہیں تھا ‘ بلکہ خود ان کی خالص نیت ایمان لانے کی سچے طور پر ہوگئی تھی ‘ اس نیت کی قدر فرمائی اور ان کا آخری وقت کا ایمان قبول فرما لیا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس سے 2 ؎ اور تفسیر ابن مردویہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت سے یہ حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے حضرت یونس ( علیہ السلام) کی قوم کے آخری وقت کے ایمان کے قبول ہونے کا سبب صراحت سے فرمایا ہے ‘ یہ شعیب مدین والے شعیب نہیں ہیں بلکہ یہ انبیائے بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ کے بعد ایک اور شعیب ہیں ‘ صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے 3 ؎۔ جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ قیامت کے قریب جب سورج مغرب سے نکلے گا تو پھر کسی کی توبہ قبول نہ ہوگی۔ معتبر سند سے ترمذی اور ابن ماجہ میں عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے 4 ؎۔ جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا موت کے قریب جب سانس اکھڑ کر خراٹا لگ جاتا ہے تو اس وقت کی توبہ قبول نہیں ہوتی ‘ اوپر یہ جو گزرا کہ قیامت کی نشانیاں ظاہر ہوجانے کے بعد یا موت اور عذاب کا یقین ہوجانے کے بعد انسان کے ذمہ شریعت کے حکم کی پابندی باقی نہیں رہتی ‘ اس واسطے ایسے وقت کو توبہ قبول نہیں ‘ اسی واسطے ان یمنی لوگوں کی آخری وقت کی توبہ قبول نہیں ہوئی ‘ ان حدیثوں سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے ‘ قصم کے معنی کسی چیز کے توڑ ڈالنے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ بابلی لوگوں نے ان یمنی لوگوں کو ایسا مارا کہ ان کی کمر ٹوٹ گئی۔ آگے کو لڑنے کی ہمت نہ رہی ‘ اور شکست کھا کر بالکل ہلاک ہوگئے ‘ چوپائے جانوروں کے قدموں کی آواز کو رکض کہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ اپنی سواریوں پر سوار ہو کر بھاگے تھے لعلکم تسلمون اس کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ بڑے صاحب ثروت کہلاتے تھے۔ اب بھاگتے کیوں ہو ‘ اپنے اپنے گھروں کو جاؤ ‘ شاید تمہارے دوست آشنا ‘ نوکر چاکر ‘ روپیہ پیسہ خرچ کرنے اور اس عذاب کے ٹالنے کی تم سے کوئی تدبیر پوچھیں ‘ یہ بات بھی فرشتوں نے ان لوگوں کے شرمندہ کرنے کے لیے کہی تھی حصیدا خامدین اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ کٹی ہوئی کھیتی کی طرح بالکل کٹ گئے اور بجھی ہوئی آگ کی طرح بالکل ٹھنڈے اور دہم ہو کر رہ گئے۔ 1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 314 ج 4۔ 2 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 317۔ 318 ج 3 سورة یونس۔ 3 ؎ مشکوٰۃ باب العلامات بین یدی الساعتہ۔ 4 ؎ مشکوٰۃ۔ باب الاستغفار والتوبہ۔
Top