Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 16
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ
وَمَا خَلَقْنَا
: اور ہم نے نہیں پیدا کیا
السَّمَآءَ
: آسمان
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
وَمَا
: اور جو
بَيْنَهُمَا
: ان دونوں کے درمیان
لٰعِبِيْنَ
: کھیلتے ہوئے
اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو (مخلوقات) ان دونوں کے درمیان ہے اس کو لہو و لعب کے لئے پیدا نہیں کیا
16۔ 18:۔ مشرکین مکہ نے جس طرح ملت ابراہیمی کی اور باتوں کو دل سے بھلا دیا تھا ‘ اسی طرح حشر اور قیامت کے مسئلہ کو بھی بھلا دیا تھا۔ اس لیے قرآن شریف میں حشر اور قیامت کی باتیں سن کر وہ طرح طرح کی عقبی بحث کرتے تھے ‘ چناچہ ایک شخص ابی بن خلف ایک روز ایک پرانی گلی ہوئی ہڈی آنحضرت ﷺ کے روبرو لایا اور اس ہڈی کو مل مل کر ہڈی کی راکھ ہوا میں اڑاتا جاتا تھا ‘ اور کہتا تھا ‘ کیا یہ راکھ محمد کا خدا پھر زندہ کرے گا ‘ اس قصہ کا ذکر مفصل سورة یس میں آوے گا اور اسی طرح کی بہت عقلی بحثیں ان لوگوں کی قرآن شریف میں کئی جگہ ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں اور بہت سی قرآن کی آیتوں میں ان کو قلی طور پر سمجھایا ہے کہ آسمان زمین اور جو کچھ دنیا کی چیزیں ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کی راحت اور آسائش اور رفع ضرورت کے لیے وہ سب پیدا کی ہیں ‘ آسمان سے مینہ کی ضرورت کے وقت مینہ برساتا ہے جس سے ہر طرح کی چیز زمین میں پیدا ہوتی ہیں ‘ دھوپ کے وقت دھوپ پڑتی ہے جس سے ہر طرح کی پیداوار پک کر تیار ہوجاتی ہے ‘ زمین میں ہر طرح کی پیداوار کی قوت اور تاثیر اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے جس سے انسان کے کھانے ‘ پینے ‘ اوڑھنے ‘ بچھانے ‘ پہننے ‘ مکان بنانے کی سب طرح کی ضرورتیں رفع ہوتی ہیں ‘ زمین کے جمنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے زمین کسی طرح کی ضرورت سے انسان کو جانا مشکل نہ ہو۔ غرض جس انسان کی ضرورت کے لیے یہ سب کچھ پیدا کیا گیا ہے باوجود عقل وتمیز کے کیا وہ انسان حیوانوں کی طرح عبث اور بےفائدہ پیدا ہوا ہے ‘ کہ جب تک جیئے کھائے پییٔے اور ایک دن مر کر خاک ہوجاوے ‘ بس پھر کچھ بھی نہیں ‘ ادنی سی عقل کا آدمی دنیا میں کوئی کام کرتا ہے تو کوئی مقصد اس کام کے کرنے سے اپنے دل میں ضرور ٹھان لیتا ہے مثلا کھیتی کرتا ہے ‘ تو اناج کے حاصل ہونے کے مقصد سے باغ لگاتا ہے تو میوہ کھانے کے مطلب سے ‘ مکان بناتا ہے تو رہنے کی نیت سے ‘ وہ خالق جس نے عقل اور عقل والوں سب کو پیدا کیا۔ اس کے دنیا کی پیدائش جیسے بڑے کام کو یہ لوگ کس سمجھ اور عقل سے بےفائدہ اور بےمقصد ٹھہراتے ہیں ‘ ذرا بھی یہ لوگ اپنی عقل کو کام میں لاویں گے تو ان کی سمجھ میں آجاوے گا کہ ان کا ان کی ضرورت کی چیزوں کا پیدا کرنے والا کوئی ہے اور اس کا احسان ان پر ایسا بڑا ہے کہ اس نے ان کو نیست سے ہست کردیا ‘ ان کی ہر طرح کی ضرورت کی چیزیں مہیا کیں اس قدر سمجھ جانے کے بعد خود ان کا دل گواہی دے گا کہ جس نے ان پر اتنا بڑا احسان کیا ہے اس کی فرمانبرداری اس کی نہایت درجہ کی تعظیم ان کے اوپر واجب اور ضرور ہے ‘ اس پہلی چیز عقل سے بھی دریافت ہوسکتی ہے ‘ دوسری اور تیسری چیز محض عقل سے نہیں معلوم ہوسکتی کیونکہ عقل میں اتنی قدرت اور طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے فرمانبرداری اور تعظیم کے طریقے ایجاد کرلے جس کی فرمانبرداری اور جس کی تعظیم ہے جب تک وہ نہ بتادے کہ کون سی قسم کی فرمانبرداری اور کس قسم کی تعظیم اس کی مرضی کے موافق ہے۔ پرائی مرضی کا حال عقل کیا جان سکتی ہے ‘ غرض دوسری اور تیسری بات کے جان لینے کے لیے کسی راہبر کی ضرورت ہے ‘ ان ہی راہبروں کا نام پیغمبر ہے ‘ اور طریقہ راہبری کا نام شریعت ہے اب رہی یہ بات کہ جس خدا نے اپنی فرمانبرداری اور تعظیم سے پہلے انسان پر اس کی ضرورت کی چیزوں کے پیدا کرنے کا احسان کیا ہے جو شخص اس کی فرمانبرداری اور اس اس کی تعظیم کرے گا کیا اس سے وہ خوش ہو کر کچھ انعام اس کو نہ دے گا اور جو اس کی مرضی کے موافق کام نہ کرے گا اس کو وہ کچھ سزا نہ دے گا ‘ یہ عقلی تجربہ کے بالکل برخلاف ہے کیونکہ یہ بات ہر شخص کی آنکھوں کے روبرو ہے کہ کسی بادشاہ کے دربار میں فرمانبردار اور نافرمان رعیت کا ایک حال نہیں ہے فرمانبردار رعیت کو انعام اور خلعت ملتے ہیں نافرمان رعیت سے جیل خانے بھرے جاتے ہیں ‘ گردنیں ماری جاتی ہیں پھر خدا کی طرف کی جزا وسزا یہیں دنیا میں ہوجاتی تو دنیا کی زیست کو قیام نہیں ہوتا اس واسطے جزا وسزا کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے دوبارہ انسان کا پھر زندہ کرنا قرار دیا ہے ‘ اسی کا نام حشر ہے اور جس روز یہ جزا اللہ تعالیٰ تجویز فرماوے گا اس دن کا نام قیامت ہے اور جب اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ایک دفعہ انسان کو پیدا کرچکا ہے تو دوسری دفعہ انسان کا پھر پیدا کرنا تجربہ عقلی سے اس کو سہل اور آسان ہے ‘ کوئی دلیل عقلی اس دوسری دفعہ پیدا کرنے کے ناممکن ہونے کی اب تک نہ قائم ہوئی ہے نہ آئندہ کوئی عقل مند قائم کرسکتا ہے ‘ یہ بہت سی ان آیتوں کا حاصل مطلب ہے جن آیتوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جگہ جگہ مشرکین کی عقلی بحثوں کے جواب میں نازل فرمایا ہے اور اس حاصل مطلب سے توحید کی ضرورت ‘ نبوت کی ضرورت ‘ شریعت کی ضرورت ‘ حشر کی ضرورت ‘ قیامت ‘ سب کچھ اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ عقل کو بنظر انصاف کسی چیز کے انکار کی گنجائش کسی طرح باقی نہیں رہتی ‘ ان ہی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی غلطی کو بھی بیان فرمایا ہے ‘ جو حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر ( علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے ‘ وہ بیان بھی ایسا ہے کہ کوئی عقلمند اس کے ماننے میں شبہ نہیں کرسکتا۔ مگر سورة المائدہ میں گزرا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کھایا کرتے تھے ‘ اب جس کی ذات میں اتنا تغیر ہو کہ ہر روز کی غذا سے اس کا خون ‘ گوشت سب کچھ بڑھتا رہے اسے اللہ تعالیٰ کی ذات سے کچھ مناسبت نہیں ‘ حالانکہ باپ بیٹے میں مناسبت ضرور ہے ‘ یہی حال عزیر (علیہ السلام) کا ہے ‘ اسی طرح اللہ کی عظمت کے آگے فرشتے عاجزی سے جس طرح ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں ‘ اس کا ذکر آگے آتا ہے ‘ پھر ان میں سے کسی کو اللہ کی اولاد کیوں کر ٹھہرایا جاسکتا ہے ’ علم کلام کی کتابوں میں جس کو ” علم عقائد “ کہتے ہیں ‘ یہ جو لکھا ہے کہ ہر ایک شخص پر دلیل عقلی سے خدا کا پہچاننا فرض ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص ان قاعدوں کے موافق خدا کو نہ پہچانے جو قاعدے علم کلام والوں نے صفات الٰہی عین ذات ہیں یا غیر ہیں اور پھر وہ سب صفات ایک ہیں یا علیحدہ علیحدہ ہیں اور اس طرح اور پیچیدہ چند قاعدے جو ہیں ‘ ان قاعدوں کے سیکھنے اور جاننے تک آدمی کا ایمان صحیح نہیں ہوتا ‘ یہ علم کلام کی ایسی سب باتیں ابو ہاشم 1 ؎ معتزلی کی ایجاد کی ہوئی ہیں۔ عقل سے خدا کو پہچاننے کی چند آیتوں کا مطلب جو اوپر بیان ہوا ہے یا اس قسم کی حدیثیں جو کچھ ہیں وہ فقط ان مشرکوں کی عقلی حجتوں کے جواب میں ہیں جو شرک پر اڑے ہوئے تھے اور توحید کے ماننے میں طرح طرح کی عقلی حجتیں پیش کرتے تھے اب بھی کوئی ایسا حجتی ہو تو اس کو اس قسم کی آیتوں یا حدیثوں سے قائل کرنے کا مضائقہ نہیں مگر جس شخص نے بغیر حجت کے کلمہ شہادت ادا کرلیا ‘ اس کو بغیر ابوہاشم کی نکالی ہوئی باتوں کے سیکھنے کے ناقص الایمان کہنا بڑا ظلم ہے یوم المیثاق میں نہ خدا تعالیٰ نے ان علم کلام کی باتوں سے اپنی شناخت کرائی ‘ نہ حضرت جبرئیل جب ایک سائل بن کر آنحضرت ﷺ کے پاس لوگوں کو ایمان سکھانے آئے تو انہوں نے ان باتوں کا ذکر کیا ‘ نہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے زمانہ میں یہ باتیں ایمان کی شرط قرار پائیں ‘ سینکڑوں ہزاروں دیہاتی عرب آنحضرت ﷺ اور صحابہ کے زمانہ میں فقط کلمہ شہادت ادا کرکے اور کچھ معمولی نماز روزہ کے مسائل سیکھ کر اپنے اپنے گاؤں کو چلے جاتے تھے اور آنحضرت ﷺ اور صحابہ ؓ ان کو مسلمان گنتے تھے ‘ بعض اہل علم کلام والوں نے اس کا یہ جواب جو دیا ہے کہ زمانہ ابتدائے اسلام میں اس طرح کا معمولی ایمان جائز تھا اب جائز نہیں ہے ‘ یہ بالکل ایک غلط جواب ہے دین وہی ہے جو آنحضرت ﷺ اور صحابہ ؓ کے زمانہ میں اس کی ضرورت نہ تھی ‘ اب ضرورت ہے اسی کا نام بدعت ہے اور آنحضرت کے زمانہ میں جو لوگ ایمان لائے اور برکت صحبت رسول سے صحابیت کے درجے کو پہنچے ان کے ایمان کو ایک معمولی ایمان بتلانا اور اپنے ایمان کو درجہ معمولی سے بڑھ کر ایک اعلی درجہ کا ایمان شمار کرنا ایک بڑی جرأت کی بات ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جس طرح فقہ میں چار مذہب حنفی ‘ شافعی ‘ مالکی ‘ حنبلی مشہور ہیں اسی طرح عقائد میں تین مذہب حنابلہ ‘ اشاعرہ ‘ ماتریدیہ مشہور ہیں ‘ حنابلہ لوگوں کی نسبت امام احمد بن حنبل (رح) سے ہے ‘ اور اشاعرہ لوگوں کی نسبت ابوالحسن اشعری سے ہے 2 ؎۔ جو ابو موسیٰ اشعری ایک مشہور صحابی کی اولاد میں ہیں اور ماتریدیہ لوگوں کی نسبت ابو المنصور ماتریدی ہے 3 ؎۔ سلف کے قول سے زیادہ مطابقت حنابلہ لوگوں کے قاعدوں میں پائی جاتی ہے۔ سلف نے اس طرح کے عقلی علم عقائد کے پڑھنے لکھنے کو منع لکھا ہے اور یہ کہا ہے کہ اس طرح کے عقلی علم عقائد سے بجائے عقیدہ کے مضبوط ہونے کے آدمی کا اور شک بڑھ جاتا ہے اور سچ بھی ہے ‘ سب آدمیوں کا اور شک بڑھ جاتا ہے اور سچ بھی ہے ‘ سب آدمیوں کی عقل ایک سی نہیں ہوتی ‘ کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ اس لیے ہر عقلی بات شک سے خالی نہیں ہوتی ‘ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے اور صحیح مسلم میں حضرت عمر ؓ سے جو روایتیں ہیں 4 ؎۔ ان کا حاصل یہ ہے کہ ایک دن ایک شخص آیا اور اس نے دین کی چند باتیں اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے پوچھیں ‘ جب اس شخص نے پوچھا کہ ایمان کیا چیز ہے تو اللہ کے رسول نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو دیکھ کر آدمی اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یقین کرے اور جب ان چیزوں کے پیدا کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے تو خالص اسی کی عبادت انسان پر واجب ہے دین کی چند باتیں پوچھ کر جب وہ شخص چلا گیا تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا یہ جبرئیل (علیہ السلام) تھے اللہ کے حکم سے تم لوگوں کو دین سکھانے آئے تھے ‘ اس صحیح حدیث کے ٹکڑے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ کے حکم سے جبرئیل (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی پہچان کا جو طریقہ صحابہ کو سکھایا ہے اور صحابہ ؓ کی روایتوں سے وہی طریقہ امت میں پھیلا ہے ‘ اس طریقہ میں علم کلام کے قاعدوں کا کچھ دخل نہیں ہے 5 ؎۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو لوگ اپنی پہلی پیدائش آنکھوں سے دیکھ کر دوسری دفعہ کی پیدائش سے منکر ہیں ‘ وہ نادانی سے اللہ کو جھٹلاتے ہیں اور جو لوگ اللہ کو صاحب اولاد ٹھہراتے ہیں ان کی جرأت گویا گالی دینے کے برابر ہے کیونکہ باپ اور اولاد میں جو مناسبت اور مشابہت ہوتی ہے خالق اور مخلوق میں وہ نہیں پائی جاتی ‘ پھر زبردستی اللہ کی ذات میں اس مناسبت کا پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی ذات کو بٹہ لگانا ہے جو گالی کے برابر ہے ‘ اس حدیث سے منکرین حشر کی اور اللہ تعالیٰ کو صاحب اولاد ٹھہرانے والوں کی جرأت کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے پھر فرمایا اگر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی کو اولاد ٹھہراتا تو فرشتوں میں سے ٹھہراتا جو کھانے پینے سے پاک اور پہلے صور تک زندہ رہنے والے ہیں ‘ اس کے بعد قرآن کی ان سچی باتوں کو ایک پہاڑ اور مشرکوں کی ان جھوٹی باتوں کو ایک شخص قرار دے کر فرمایا کہ ان سچی باتوں کے پہاڑ کو پھینک مارنے سے آخر ایک دن ان جھوٹی باتوں کا سر کچل جائے گا اور یہ جھوٹی باتیں مکہ میں باقی نہ رہیں گی اور جو لوگ مرتے دم تک ان جھوٹی باتوں سے باز نہ آویں گے مرنے کے بعد بڑی بڑی آفت اور برائی میں پڑجاویں گے ‘ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود ؓ اور صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایتیں فتح مکہ کے قصہ میں کئی جگہ گزر چکی ہیں کہ اس وقت اللہ کے رسول ﷺ نے مکہ کے مشرکوں کے بتوں کو اپنے ہاتھ کی لکڑی سے مار مار کر گرایا اور فرمایا سچ آیا اور جھوٹ بھاگا آخری آیت میں جھوٹ کا سر پھوٹ جانے اور اس کے سٹک جانے کا جو وعدہ ہے اس کا ظہور ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کیونکہ اگر وہ بت انسان ہوتے تو لکڑیوں کی مار سے اور زمین پر پٹخے جانے سے ان کے سر کو صدمہ پہنچتا 6 ؎۔ صحیح بخاری ومسلم میں نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ قیامت کے دن کم سے کم دوزخ کا عذاب یہ ہوگا کہ دوزخی شخص کے پاؤں میں آگ کی جوتیاں پہنا دی جاویں گی جس سے اس کا بھیجا کھل کر نکل پڑے گا ‘ آیتوں میں جس عذاب کو خرابی فرمایا ہے ‘ اس کا اندازہ اس حدیث سے کیا جاسکتا ہے۔ 1 ؎ ایک مشہور بدعتی فرقہ معتزلہ کا ایک ممتاز عالم عبدالسلام بن محمد متوفی 321 ھ 2 ؎ امام علی بن اسمیٰعل الاشعری متوفی 324 ھ 3 ؎ محمد بن محمود ماتریدی متوفی 333 ھ۔ 4 ؎ مشکوٰۃ۔ کتاب الایمان ’ حدیث اول۔ 5 ؎ مشکوٰۃ ص 12۔ کتاب الایمان۔ 6 ؎ مشکوٰۃ ‘ باب صفۃ اہل النا رواہلہا۔
Top