Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anbiyaa : 16
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ
وَمَا خَلَقْنَا : اور ہم نے نہیں پیدا کیا السَّمَآءَ : آسمان وَالْاَرْضَ : اور زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان لٰعِبِيْنَ : کھیلتے ہوئے
اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو (مخلوقات) ان دونوں کے درمیان ہے اس کو لہو و لعب کے لئے پیدا نہیں کیا
16۔ 18:۔ مشرکین مکہ نے جس طرح ملت ابراہیمی کی اور باتوں کو دل سے بھلا دیا تھا ‘ اسی طرح حشر اور قیامت کے مسئلہ کو بھی بھلا دیا تھا۔ اس لیے قرآن شریف میں حشر اور قیامت کی باتیں سن کر وہ طرح طرح کی عقبی بحث کرتے تھے ‘ چناچہ ایک شخص ابی بن خلف ایک روز ایک پرانی گلی ہوئی ہڈی آنحضرت ﷺ کے روبرو لایا اور اس ہڈی کو مل مل کر ہڈی کی راکھ ہوا میں اڑاتا جاتا تھا ‘ اور کہتا تھا ‘ کیا یہ راکھ محمد کا خدا پھر زندہ کرے گا ‘ اس قصہ کا ذکر مفصل سورة یس میں آوے گا اور اسی طرح کی بہت عقلی بحثیں ان لوگوں کی قرآن شریف میں کئی جگہ ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں اور بہت سی قرآن کی آیتوں میں ان کو قلی طور پر سمجھایا ہے کہ آسمان زمین اور جو کچھ دنیا کی چیزیں ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کی راحت اور آسائش اور رفع ضرورت کے لیے وہ سب پیدا کی ہیں ‘ آسمان سے مینہ کی ضرورت کے وقت مینہ برساتا ہے جس سے ہر طرح کی چیز زمین میں پیدا ہوتی ہیں ‘ دھوپ کے وقت دھوپ پڑتی ہے جس سے ہر طرح کی پیداوار پک کر تیار ہوجاتی ہے ‘ زمین میں ہر طرح کی پیداوار کی قوت اور تاثیر اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے جس سے انسان کے کھانے ‘ پینے ‘ اوڑھنے ‘ بچھانے ‘ پہننے ‘ مکان بنانے کی سب طرح کی ضرورتیں رفع ہوتی ہیں ‘ زمین کے جمنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے زمین کسی طرح کی ضرورت سے انسان کو جانا مشکل نہ ہو۔ غرض جس انسان کی ضرورت کے لیے یہ سب کچھ پیدا کیا گیا ہے باوجود عقل وتمیز کے کیا وہ انسان حیوانوں کی طرح عبث اور بےفائدہ پیدا ہوا ہے ‘ کہ جب تک جیئے کھائے پییٔے اور ایک دن مر کر خاک ہوجاوے ‘ بس پھر کچھ بھی نہیں ‘ ادنی سی عقل کا آدمی دنیا میں کوئی کام کرتا ہے تو کوئی مقصد اس کام کے کرنے سے اپنے دل میں ضرور ٹھان لیتا ہے مثلا کھیتی کرتا ہے ‘ تو اناج کے حاصل ہونے کے مقصد سے باغ لگاتا ہے تو میوہ کھانے کے مطلب سے ‘ مکان بناتا ہے تو رہنے کی نیت سے ‘ وہ خالق جس نے عقل اور عقل والوں سب کو پیدا کیا۔ اس کے دنیا کی پیدائش جیسے بڑے کام کو یہ لوگ کس سمجھ اور عقل سے بےفائدہ اور بےمقصد ٹھہراتے ہیں ‘ ذرا بھی یہ لوگ اپنی عقل کو کام میں لاویں گے تو ان کی سمجھ میں آجاوے گا کہ ان کا ان کی ضرورت کی چیزوں کا پیدا کرنے والا کوئی ہے اور اس کا احسان ان پر ایسا بڑا ہے کہ اس نے ان کو نیست سے ہست کردیا ‘ ان کی ہر طرح کی ضرورت کی چیزیں مہیا کیں اس قدر سمجھ جانے کے بعد خود ان کا دل گواہی دے گا کہ جس نے ان پر اتنا بڑا احسان کیا ہے اس کی فرمانبرداری اس کی نہایت درجہ کی تعظیم ان کے اوپر واجب اور ضرور ہے ‘ اس پہلی چیز عقل سے بھی دریافت ہوسکتی ہے ‘ دوسری اور تیسری چیز محض عقل سے نہیں معلوم ہوسکتی کیونکہ عقل میں اتنی قدرت اور طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے فرمانبرداری اور تعظیم کے طریقے ایجاد کرلے جس کی فرمانبرداری اور جس کی تعظیم ہے جب تک وہ نہ بتادے کہ کون سی قسم کی فرمانبرداری اور کس قسم کی تعظیم اس کی مرضی کے موافق ہے۔ پرائی مرضی کا حال عقل کیا جان سکتی ہے ‘ غرض دوسری اور تیسری بات کے جان لینے کے لیے کسی راہبر کی ضرورت ہے ‘ ان ہی راہبروں کا نام پیغمبر ہے ‘ اور طریقہ راہبری کا نام شریعت ہے اب رہی یہ بات کہ جس خدا نے اپنی فرمانبرداری اور تعظیم سے پہلے انسان پر اس کی ضرورت کی چیزوں کے پیدا کرنے کا احسان کیا ہے جو شخص اس کی فرمانبرداری اور اس اس کی تعظیم کرے گا کیا اس سے وہ خوش ہو کر کچھ انعام اس کو نہ دے گا اور جو اس کی مرضی کے موافق کام نہ کرے گا اس کو وہ کچھ سزا نہ دے گا ‘ یہ عقلی تجربہ کے بالکل برخلاف ہے کیونکہ یہ بات ہر شخص کی آنکھوں کے روبرو ہے کہ کسی بادشاہ کے دربار میں فرمانبردار اور نافرمان رعیت کا ایک حال نہیں ہے فرمانبردار رعیت کو انعام اور خلعت ملتے ہیں نافرمان رعیت سے جیل خانے بھرے جاتے ہیں ‘ گردنیں ماری جاتی ہیں پھر خدا کی طرف کی جزا وسزا یہیں دنیا میں ہوجاتی تو دنیا کی زیست کو قیام نہیں ہوتا اس واسطے جزا وسزا کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے دوبارہ انسان کا پھر زندہ کرنا قرار دیا ہے ‘ اسی کا نام حشر ہے اور جس روز یہ جزا اللہ تعالیٰ تجویز فرماوے گا اس دن کا نام قیامت ہے اور جب اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ایک دفعہ انسان کو پیدا کرچکا ہے تو دوسری دفعہ انسان کا پھر پیدا کرنا تجربہ عقلی سے اس کو سہل اور آسان ہے ‘ کوئی دلیل عقلی اس دوسری دفعہ پیدا کرنے کے ناممکن ہونے کی اب تک نہ قائم ہوئی ہے نہ آئندہ کوئی عقل مند قائم کرسکتا ہے ‘ یہ بہت سی ان آیتوں کا حاصل مطلب ہے جن آیتوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جگہ جگہ مشرکین کی عقلی بحثوں کے جواب میں نازل فرمایا ہے اور اس حاصل مطلب سے توحید کی ضرورت ‘ نبوت کی ضرورت ‘ شریعت کی ضرورت ‘ حشر کی ضرورت ‘ قیامت ‘ سب کچھ اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ عقل کو بنظر انصاف کسی چیز کے انکار کی گنجائش کسی طرح باقی نہیں رہتی ‘ ان ہی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی غلطی کو بھی بیان فرمایا ہے ‘ جو حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر ( علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے ‘ وہ بیان بھی ایسا ہے کہ کوئی عقلمند اس کے ماننے میں شبہ نہیں کرسکتا۔ مگر سورة المائدہ میں گزرا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کھایا کرتے تھے ‘ اب جس کی ذات میں اتنا تغیر ہو کہ ہر روز کی غذا سے اس کا خون ‘ گوشت سب کچھ بڑھتا رہے اسے اللہ تعالیٰ کی ذات سے کچھ مناسبت نہیں ‘ حالانکہ باپ بیٹے میں مناسبت ضرور ہے ‘ یہی حال عزیر (علیہ السلام) کا ہے ‘ اسی طرح اللہ کی عظمت کے آگے فرشتے عاجزی سے جس طرح ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں ‘ اس کا ذکر آگے آتا ہے ‘ پھر ان میں سے کسی کو اللہ کی اولاد کیوں کر ٹھہرایا جاسکتا ہے ’ علم کلام کی کتابوں میں جس کو ” علم عقائد “ کہتے ہیں ‘ یہ جو لکھا ہے کہ ہر ایک شخص پر دلیل عقلی سے خدا کا پہچاننا فرض ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص ان قاعدوں کے موافق خدا کو نہ پہچانے جو قاعدے علم کلام والوں نے صفات الٰہی عین ذات ہیں یا غیر ہیں اور پھر وہ سب صفات ایک ہیں یا علیحدہ علیحدہ ہیں اور اس طرح اور پیچیدہ چند قاعدے جو ہیں ‘ ان قاعدوں کے سیکھنے اور جاننے تک آدمی کا ایمان صحیح نہیں ہوتا ‘ یہ علم کلام کی ایسی سب باتیں ابو ہاشم 1 ؎ معتزلی کی ایجاد کی ہوئی ہیں۔ عقل سے خدا کو پہچاننے کی چند آیتوں کا مطلب جو اوپر بیان ہوا ہے یا اس قسم کی حدیثیں جو کچھ ہیں وہ فقط ان مشرکوں کی عقلی حجتوں کے جواب میں ہیں جو شرک پر اڑے ہوئے تھے اور توحید کے ماننے میں طرح طرح کی عقلی حجتیں پیش کرتے تھے اب بھی کوئی ایسا حجتی ہو تو اس کو اس قسم کی آیتوں یا حدیثوں سے قائل کرنے کا مضائقہ نہیں مگر جس شخص نے بغیر حجت کے کلمہ شہادت ادا کرلیا ‘ اس کو بغیر ابوہاشم کی نکالی ہوئی باتوں کے سیکھنے کے ناقص الایمان کہنا بڑا ظلم ہے یوم المیثاق میں نہ خدا تعالیٰ نے ان علم کلام کی باتوں سے اپنی شناخت کرائی ‘ نہ حضرت جبرئیل جب ایک سائل بن کر آنحضرت ﷺ کے پاس لوگوں کو ایمان سکھانے آئے تو انہوں نے ان باتوں کا ذکر کیا ‘ نہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے زمانہ میں یہ باتیں ایمان کی شرط قرار پائیں ‘ سینکڑوں ہزاروں دیہاتی عرب آنحضرت ﷺ اور صحابہ کے زمانہ میں فقط کلمہ شہادت ادا کرکے اور کچھ معمولی نماز روزہ کے مسائل سیکھ کر اپنے اپنے گاؤں کو چلے جاتے تھے اور آنحضرت ﷺ اور صحابہ ؓ ان کو مسلمان گنتے تھے ‘ بعض اہل علم کلام والوں نے اس کا یہ جواب جو دیا ہے کہ زمانہ ابتدائے اسلام میں اس طرح کا معمولی ایمان جائز تھا اب جائز نہیں ہے ‘ یہ بالکل ایک غلط جواب ہے دین وہی ہے جو آنحضرت ﷺ اور صحابہ ؓ کے زمانہ میں اس کی ضرورت نہ تھی ‘ اب ضرورت ہے اسی کا نام بدعت ہے اور آنحضرت کے زمانہ میں جو لوگ ایمان لائے اور برکت صحبت رسول سے صحابیت کے درجے کو پہنچے ان کے ایمان کو ایک معمولی ایمان بتلانا اور اپنے ایمان کو درجہ معمولی سے بڑھ کر ایک اعلی درجہ کا ایمان شمار کرنا ایک بڑی جرأت کی بات ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جس طرح فقہ میں چار مذہب حنفی ‘ شافعی ‘ مالکی ‘ حنبلی مشہور ہیں اسی طرح عقائد میں تین مذہب حنابلہ ‘ اشاعرہ ‘ ماتریدیہ مشہور ہیں ‘ حنابلہ لوگوں کی نسبت امام احمد بن حنبل (رح) سے ہے ‘ اور اشاعرہ لوگوں کی نسبت ابوالحسن اشعری سے ہے 2 ؎۔ جو ابو موسیٰ اشعری ایک مشہور صحابی کی اولاد میں ہیں اور ماتریدیہ لوگوں کی نسبت ابو المنصور ماتریدی ہے 3 ؎۔ سلف کے قول سے زیادہ مطابقت حنابلہ لوگوں کے قاعدوں میں پائی جاتی ہے۔ سلف نے اس طرح کے عقلی علم عقائد کے پڑھنے لکھنے کو منع لکھا ہے اور یہ کہا ہے کہ اس طرح کے عقلی علم عقائد سے بجائے عقیدہ کے مضبوط ہونے کے آدمی کا اور شک بڑھ جاتا ہے اور سچ بھی ہے ‘ سب آدمیوں کا اور شک بڑھ جاتا ہے اور سچ بھی ہے ‘ سب آدمیوں کی عقل ایک سی نہیں ہوتی ‘ کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ اس لیے ہر عقلی بات شک سے خالی نہیں ہوتی ‘ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے اور صحیح مسلم میں حضرت عمر ؓ سے جو روایتیں ہیں 4 ؎۔ ان کا حاصل یہ ہے کہ ایک دن ایک شخص آیا اور اس نے دین کی چند باتیں اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے پوچھیں ‘ جب اس شخص نے پوچھا کہ ایمان کیا چیز ہے تو اللہ کے رسول نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو دیکھ کر آدمی اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یقین کرے اور جب ان چیزوں کے پیدا کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے تو خالص اسی کی عبادت انسان پر واجب ہے دین کی چند باتیں پوچھ کر جب وہ شخص چلا گیا تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا یہ جبرئیل (علیہ السلام) تھے اللہ کے حکم سے تم لوگوں کو دین سکھانے آئے تھے ‘ اس صحیح حدیث کے ٹکڑے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ کے حکم سے جبرئیل (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی پہچان کا جو طریقہ صحابہ کو سکھایا ہے اور صحابہ ؓ کی روایتوں سے وہی طریقہ امت میں پھیلا ہے ‘ اس طریقہ میں علم کلام کے قاعدوں کا کچھ دخل نہیں ہے 5 ؎۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو لوگ اپنی پہلی پیدائش آنکھوں سے دیکھ کر دوسری دفعہ کی پیدائش سے منکر ہیں ‘ وہ نادانی سے اللہ کو جھٹلاتے ہیں اور جو لوگ اللہ کو صاحب اولاد ٹھہراتے ہیں ان کی جرأت گویا گالی دینے کے برابر ہے کیونکہ باپ اور اولاد میں جو مناسبت اور مشابہت ہوتی ہے خالق اور مخلوق میں وہ نہیں پائی جاتی ‘ پھر زبردستی اللہ کی ذات میں اس مناسبت کا پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی ذات کو بٹہ لگانا ہے جو گالی کے برابر ہے ‘ اس حدیث سے منکرین حشر کی اور اللہ تعالیٰ کو صاحب اولاد ٹھہرانے والوں کی جرأت کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے پھر فرمایا اگر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی کو اولاد ٹھہراتا تو فرشتوں میں سے ٹھہراتا جو کھانے پینے سے پاک اور پہلے صور تک زندہ رہنے والے ہیں ‘ اس کے بعد قرآن کی ان سچی باتوں کو ایک پہاڑ اور مشرکوں کی ان جھوٹی باتوں کو ایک شخص قرار دے کر فرمایا کہ ان سچی باتوں کے پہاڑ کو پھینک مارنے سے آخر ایک دن ان جھوٹی باتوں کا سر کچل جائے گا اور یہ جھوٹی باتیں مکہ میں باقی نہ رہیں گی اور جو لوگ مرتے دم تک ان جھوٹی باتوں سے باز نہ آویں گے مرنے کے بعد بڑی بڑی آفت اور برائی میں پڑجاویں گے ‘ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود ؓ اور صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایتیں فتح مکہ کے قصہ میں کئی جگہ گزر چکی ہیں کہ اس وقت اللہ کے رسول ﷺ نے مکہ کے مشرکوں کے بتوں کو اپنے ہاتھ کی لکڑی سے مار مار کر گرایا اور فرمایا سچ آیا اور جھوٹ بھاگا آخری آیت میں جھوٹ کا سر پھوٹ جانے اور اس کے سٹک جانے کا جو وعدہ ہے اس کا ظہور ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کیونکہ اگر وہ بت انسان ہوتے تو لکڑیوں کی مار سے اور زمین پر پٹخے جانے سے ان کے سر کو صدمہ پہنچتا 6 ؎۔ صحیح بخاری ومسلم میں نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ قیامت کے دن کم سے کم دوزخ کا عذاب یہ ہوگا کہ دوزخی شخص کے پاؤں میں آگ کی جوتیاں پہنا دی جاویں گی جس سے اس کا بھیجا کھل کر نکل پڑے گا ‘ آیتوں میں جس عذاب کو خرابی فرمایا ہے ‘ اس کا اندازہ اس حدیث سے کیا جاسکتا ہے۔ 1 ؎ ایک مشہور بدعتی فرقہ معتزلہ کا ایک ممتاز عالم عبدالسلام بن محمد متوفی 321 ھ 2 ؎ امام علی بن اسمیٰعل الاشعری متوفی 324 ھ 3 ؎ محمد بن محمود ماتریدی متوفی 333 ھ۔ 4 ؎ مشکوٰۃ۔ کتاب الایمان ’ حدیث اول۔ 5 ؎ مشکوٰۃ ص 12۔ کتاب الایمان۔ 6 ؎ مشکوٰۃ ‘ باب صفۃ اہل النا رواہلہا۔
Top