Tafseer-e-Haqqani - Al-Anbiyaa : 16
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ
وَمَا خَلَقْنَا : اور ہم نے نہیں پیدا کیا السَّمَآءَ : آسمان وَالْاَرْضَ : اور زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان لٰعِبِيْنَ : کھیلتے ہوئے
اور ہم نے آسمان اور زمین اور ان کے اندر کی چیزوں کو کھیلنے کے لیے نہیں بنایا ہے۔
وما خلقنا السماء والارض الخ مشرکین بلکہ اور بہت سے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ انسان اور دیگر چیزیں آپ ہی پیدا ہوتی ہیں اور آپ ہی مٹ جاتی ہیں۔ خدا کو انسان کے نیک و بد سے کیا غرض اور رسولوں کے بھیجنے سے کیا مطلب ؟ پھر جو کوئی قوم یا شہر برباد ہوا ہوتا ہے اس میں ان کے گناہ وثواب کو کیا دخل۔ یہ سب اسباب ارضی و سماوی سے ہے۔ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ آسمان اور زمین اور اندر کی کائنات ازخود تو پیدا ہو ہی نہیں گئی بہرطور کوئی اس کی علت و سبب نکالو گے پھر اس میں کلام ہوگا انجام کار خدا کا قائل ہونا پڑے گا پھر جب ان کے ہم خالق ہیں تو باوجود اس علم و حکمت کے ہم نے ان چیزوں کو عبث اور بیکار تو پیدا کیا ہی نہیں بلکہ ہر ایک سے ایک غایت مطلوب ہے پھر جن چیزوں کو فی الجملہ اس غایت اور کمال حاصل کرنے میں اختیار بھی دیا گیا ہے اور وہ اس کو حاصل نہ کریں گے (جیسا کہ خلقت انسان سے مقصود اس کی معرفت و عبادت و دیگر مصالح ہیں) تو نکمے ہوں گے جیسا کہ میوے دار درخت کی نکمی شاخ جس کا کاٹنا ضروری ہوتا ہے تاکہ اس کی جگہ اور شاخ پھوٹے (وانشانا بعدھا قومًا آخرین) رہے اسباب ارضی و سماوی وہ سب بھی ہمارے ہی ہاتھ میں ہیں۔ اسباب کا پیدا کرنا بربادی اور ہلاکت کے لیے یا سعادت کے لیے ہمارا ہی کام ہے اور اگر ہم کو دنیا کے پیدا کرنے سے کھیل اور تماشا ہی منظور ہوتا تو لاتخذناہ من لدنا ای من عندنا اپنے ہاں سے یعنی مجردات اور نورانی چیزیں جو ہمارے اسرار ربوبیت کا نمونہ ہیں کیا کم تھیں ؟ بلکہ انبیاء اور رسل بھیجنے سے ہمارا مقصود توہمات باطلہ کا مٹانا اور حق کا جتلانا ہے۔ اس مضمون کو کس خوبی سے ادا کیا ہے باطل کو مٹی کے خام برتن سے تشبیہ دی اور حق کو سخت پتھر سے کہ جب اس کو اس برتن پر پھینک ماریں تو فوراً ٹوٹ پھوٹ جائے اس لیے فرماتا ہے کہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں کہ جس سے وہ باطل مٹ جاتا ہے۔ اور اے کفار ولکم الویل مما تصفون تم جو یہ برے بیان کرتے ہو اس سے تمہارے لیے خرابی ہے یا یہ جملہ انشائیہ بصورت جملہ خبر یہ ہے کہ تمہاری ان باتوں پر پھٹکار منجملہ ان کے برے بیانوں کے ایک یہ بھی تھا کہ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں اور عیسائی حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے تھے اب اس کا ابطال فرماتا ہے ولہ من فی السموات ولارض کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اللہ کی ملک ہے پھر اس کو بیٹے کی کیا حاجت ؟ اور جو بیٹا ہے پھر اس نے کیا پیدا کیا ہے چیزیں تو خدا کی پیدا ہوئی ہیں ؟ ومن عندہ اور اس کے پاس رہتے ہیں یعنی ملائکہ وہ تو خود رات دن اس کی عبادت کرتے ہیں ‘ تھکتے نہیں نہ تکبر کرتے ہیں پھر وہ اس کی بیٹیاں کیونکر ہیں ؟ ام اتخذوا الھۃ زمین کی چیزوں کو انہوں نے گویا خدا بنا لیا ہے پھر کوئی پوچھے ھم ینشرون کیا وہ کسی کو زندہ کرسکتے ہیں ؟ لو کان الخ اگر آسمان و زمین میں دو خدا ہوں تو آپس کے جھگڑے سے نہ آسمان رہے نہ زمین پس خدا عرش کا مالک جس کو کوئی پوچھ نہیں سکتا کہ کیا کرتا ہے ان سب باتوں سے پاک ہے۔ اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ خود انہوں نے زمین کی چیزوں سے پتھر ‘ پیتل ‘ تانبے ‘ سونے ‘ چاندی کے آپ ہی بت بنا کر کھڑے کرتے اور پھر ان کو پوجتے ہیں۔
Top