Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ahzaab : 41
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوا : یاد کرو تم اللّٰهَ : اللہ ذِكْرًا : یاد كَثِيْرًا : بکثرت
اے اہل ایمان خدا کا بہت ذکر کیا کرو
41 تا 43۔ اس آیت کے اوپر کے ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ کی یاد کثرت سے کرنے کا اور تسبیح و تہلیل کا ذکر تھا اس لیے اس کے ساتھ ہی آیت کے دوسرے ٹکڑے میں یاد الٰہی کے فائدہ کا ذکر فرمایا بڑا فائدہ ذکر الٰہی کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فاذکرونی اذکرکم صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ کی روایت 2 ؎ سے حدیث قدسی ہے جس میں اس آیت کی تفسیر یوں آئی ہے (2 ؎ مشکوۃ 196 باب ذکر اللہ عزوجل والتقرب الیہ۔ ) جو شخص مجھ کو تنہائی میں یاد کرے گا تو میں بھی اس کو تنہائی میں یاد کروں گا اور جو شخص مجھ کو آدمیوں کی جماعت میں یاد کرے گا تو میں اس کو فرشتوں کی جماعت میں یاد کروں گا جو آدمیوں کی جماعت سے بہتر ہے اسی طرح یاد الٰہی کی فضیلت میں اور بہت سی حدیثیں آئی ہیں علما نے اسلا نے یاد الٰہی کی فضیلت کو اور یاد الٰہی کے روایتوں کو ایک جگہ کرنے کی غرض سے اس باب میں خاص کتابیں تصنیف کی ہیں شیخ محی الدین بھی بن شرف نووی کی ایک تاب جس کا نام ” اذکار “ ہے اس باب میں بہت لاجواب اور بےمثل ہے۔ اب آقا کے اپنے غلام کو یاد رکھنا یہی ہے کہ آقا کی نظر عنایب غلام پر رہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے آیت کے اس ٹکڑے میں فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ کی یاد میں لگے رہتے ہیں ان پر اللہ کی رحمت اترتی ہے اور قاعدہ کی بات ہے کہ آقا کی نظر عنایت غلام پر رہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے آیت کے اس ٹکڑے میں فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ کی یاد میں لگے رہتے ہیں ان پر اللہ کی رحمت اترتی ہے اور قاعدہ کی بات ہے کہ جس غلام پر خود بادشاہ مہربان ہوتا ہے اس پر بادشاہ کے سب دربار کے لوگ بھی مہربان ہوجاتے ہیں اسی واسطے فرمایا ہے کہ یاد الٰہی میں مصروف رہنے والے لوگوں پر اللہ کی مہربانی کی نگاہ دیکھ کر فرشتے بھی ایسے لوگوں کی مغفرت کی دعا مانگتے رہتے ہیں جس طرح فرشتوں کو رات دن سوا ذکر اللہ اور یاد الٰہی کے اور کچھ کام نہیں ہے اسی طرح انسانوں میں سے جو لوگ ہر وقت یاد الٰہی میں مصروف رہتے ہیں ان کو بھی فرشتوں کے ساتھ ایک طرح کی مناسبت پیدا ہوجاتی ہے اس لیے فرشتے ایسے لوگوں کے حق میں دعا خیر کرتے رہتے ہیں جس دعا کا پورا مضمون ؎ حٓمٓ عٓسٓقٓ میں آوے گا مسند امام احمد ترمذی ترمذی اور ابن ماجہ میں ابودردلو سے روایت 1 ؎ ہے (1 ؎ مشکوٰۃ) جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص کو یاد الٰہی کا مشغلہ ہے وہ صرقہ دینے والوں اور جہاد کرنے والوں سب سے افضل مشغلہ میں ہے صحیح بخاری میں حضرت عمر ؓ سے روایت 2 ؎ ہے (2 ؎ مشکوٰۃ ص 207 باب (سعۃ رحمتہ اللہ تعالیٰ ) فصل اول و تفسیر ابن کثیر) جس کا حاصل یہ ہے کہ کسی لڑائی میں کچھ قیدی آئے تھے ان میں ایک عورت بھی تھی اس عورت کا بچہ اس سے بچھڑ گیا تھا کچھ دیر کے بعد اس عورت نے اپنے بچہ کو دیکھ لیا۔ دیکھتے ہی اس بچہ کو اس عورت نے بہت پیار کیا اور دودھ پلایا یہ معاملہ دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ کیا یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈالنے پر راضی ہوگی صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ نہیں آپ ﷺ نے فرمایا جس قدر یہ عورت اپنے بچہ سے مہربانی اور الفت سے پیش آئی ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ مہربان ہے اس حدیث کے موافق جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس قدر مہربان ہے تو جن لوگوں سے خاص ور پر اللہ تعالیٰ نے مہربانی اور رحمت کا وعدہ فرمایا ہے اس کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کس سلوک سے پیش آئے گا حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اے ایماندار لوگو ! دل سے زبان سے ہاتھ پیروں سے ذکر الٰہی لگے رہو اور نمازوں میں سے صبح اور عصر کی نماز کا بڑا خیال رکھو کہ صبح کی نماز کا وقت غفلت کا یہ ہے اور عصر کی نماز کا وقت کام کاج کا و سجود بکوۃ واصیلا کی تفسیر قتادہ نے یہی کی ہے جو بیان کی گئی کہ آیت کا ٹکڑا صبح اور عصر کی نماز کی تاکید میں ہے ‘ صحیح بخاری و میں ابوموسیٰ اشعری ؓ سے اور فقط مسلم میں عمارہ بن رویبہ سے جو صبح اور عصر کی نماز کی فضیلت کی 3 ؎ روایتیں ہیں (3 ؎ مشکوٰۃ ص 62 باب فضائل الصلوٰۃ۔ ) ان سے قتادہ ؓ کی تفسیر کی پوری تائید ہوتی ہے اب آگے فرمایا کہ جو لوگ ذکر الٰہی اور نماز صبح اور عصر کے پابند ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فرشتوں کی دعاء خیر کی برکت سے وہ گمراہی کے اندھیروں سے راہ راست کے اجالے میں رہیں گے کیوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر مہربان ہے وہ ہمیشہ ایسے لوگوں کو دنیا میں راہ راست پر رکھے گا اور عقبے میں اس کے اجر میں ان کو جنت میں داخل کرے گا جہاں یہ لوگ خوشی سے آپس میں سلا علیک کریں گے جس سلام علیک کا مطلب گویا یہ مبارک باد ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دوزخ کے عذاب سے بچا کر امن امان سے جنت میں داخل کیا۔ ابن ماجہ مسند بزار تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں جابر ؓ بن عبداللہ سے روایت 1 ؎ ہے (1 ؎ الترغیب ص 553 ج بروایت ابن ماجہ) جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اہل جنت کو اللہ تعالیٰ کا سلام بھی پہنچا کرے گا ‘ اس حدیث کی سند میں ایک راوی فضل بن عیسیٰ رقاشی کو اگرچہ اکثر علماء نے صنعیف قرار دیا ہے لیکن سورة یٰسین میں آوے گا سلام قولا من رب رحیم جس سے اس روایت کی پوری تائید ہوتی ہے علاوہ اس کے صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ کی روایت 2 ؎ ہے (2 ؎ مشکوۃ ص 573 باب مناقب ازواج النبی ﷺ جس میں یہ ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) حضرت خدیجہ ؓ کو اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچایا کرتے تھے اس حدیث سے بھی جابر بن عبداللہ ؓ کی روایت کی تائید ہوتی ہے کیونکہ جن لوگوں کا دنیا میں یہ رتبہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچتا ہے تو جنت میں ان کا رتبہ وہی رہے گا اسی واسطے امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول بھی جابر بن عبداللہ ؓ کی روایت کے موافق ہے۔
Top