Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 41
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوا : یاد کرو تم اللّٰهَ : اللہ ذِكْرًا : یاد كَثِيْرًا : بکثرت
اے ایمان والو ! اللہ کو بہت زیادہ یاد کیا کرو (یہی ذریعہ نجات ہے)
تفسیر : ایمان والو ! اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کیا کرو 41 ۔ جس چیز کی ابتدا ہے بلا شبہ اس کی انتہا بھی ضروری اور لازمی ہے۔ نبوت کی ابتداء ہوئی تو اس کی انتہا بھی لازم وضروری تھی اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) سے نبوت کا اجرا کیا تو محمد رسول اللہ ﷺ پر اس کی انتہا کردی اس طرح بحمد اللہ ابتدا بھی بخیرہوئی اور انتہا بھی بخیر ہوگئی اس بات پر اس ذات الٰہی کا جس نے نبوت و رسالت کا سلسلہ شروع کیا اور پھر اپنے اپنے وقت پر اس کو ختم بھی کردیا جتنا شکر ادا کیا جائے اتنا ہی کم ہے غور کرو کہ جس طرح ابتداء ایک ہی امت سے ہوئی جو پوری دنیا میں پھیلنے والی تھی جس سے انسانیت کو شروع کیا گیا اور اس طرح پوری انسانیت کی ہدایت کا سلسلہ شروع کیا گیا اس نے اسی سلسلہ کو محمد رسول اللہ ﷺ پر لاکر اس کے خاتمہ کا اعلان کردیا اور اب جو پوری دنیا کے انسانوں کو ایک امت بنا دیا گیا ان میں سے جو اس نظریہ کو قبول کریں گے وہ سب مل کر ایک اور صرف ایک امت بن جائیں گے اور جو انکار کی راہ اختیار کریں گے ان کو کافر کہا جائے گا خواہ وہ کہاں ہوں اور خواہ کون ہوں اور اس سلسلہ نبوت کا خاتمہ محمدرسول اللہ ﷺ پر کرکے پوری دنیا کے انسانوں کو ایک امت بنانے کا شرف جس امت کو حاصل ہوا وہ نبی کریم ﷺ کی امت ہے اور اس نعمت عظمیٰ کے حاصل ہونے پر ہم جتنا بھی فخر کریں بجا ہے شرط یہ ہے کہ یہ فخر کرنے کا انداز اس کی ہدایت کے مطابق ہو جس ذات نے یہ شرف امت کو بخشا گویا ہمارے دن کی ابتداء بھی اس نعمت کے شکرانے سے ہو اور انتہا بھی اسی پر ہو اور وہ اس طرح ممکن ہے کہ آپ ﷺ کی آمد کے بعد کسی نئے یا پرانے کی آمد کا ہم کو انتظار نہ رہے اور بلا شبہ سورج کی موجودگی میں کسی دوسرے چراغ کی کوئی ضرورت نہیں خواہ وہ گھی سے روشن کیا جائے یا تیل زیتون سے سبحان اللہ بحمدہ سبحان اللہ العظیم
Top