Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 41
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوا : یاد کرو تم اللّٰهَ : اللہ ذِكْرًا : یاد كَثِيْرًا : بکثرت
اے اہل ایمان خدا کا بہت ذکر کیا کرو
تبشیر مومنین وانذار کا فرین ومنافقین وذکر بعض فضائل نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم قال اللہ تعالی۔ یایھا الذین امنوا اذکروا اللہ ذکرا کثیرا وسبحوہ بکرۃ واصیلا۔۔۔ الی۔۔۔ و توکل علی وکفی باللہ وکیلا۔ (ربط) گذشتہ آیات میں آنحضرت ﷺ کی فضیلت و کرامت یعنی آپ ﷺ کی رسالت اور ختم نبوت کا ذکر تھا اب ان آیات میں اہل ایمان کو حکم دیتے ہیں کہ تم صبح وشام اللہ کے ذکر اور شکر میں لگے رہو خاص کر اللہ کی اس نعمت کو پیش نظر رکھو کہ اس نے تمہاری ہدایت کے لئے ایک بشیر ونذیر کو مبعوث فرمایا پس اس نعمت کا شکریہ ہے کہ تم اس بشیر ونذیر پر ایمان لاؤ اور اس کی اطاعت کرو اور نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ﷺ اہل ایمان اور اہل اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل کبیر کی خوشی سنا دیجئے اور آپ ﷺ کی تسلی کے لئے یہ ارشاد فرمایا کہ کافروں اور منافقوں کی ایذاؤں کی پروا نہ کیجئے اللہ پر بھروسہ رکھئے۔ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کا کافی کارساز ہے اور یہ مضمون شروع سورت کے مضمون کے ساتھ غایت درجہ مربوط ہے اور سلسلہء کلام میں آنحضرت ﷺ کے بعض فضائل اور کمالات کا ذکر کیا۔ تاکہ لوگوں پر آپ ﷺ کی جلالت شان ظاہر ہو۔ (جیسا کہ شروع سورت سے یہ مضمون چلا آرہا ہے) اور اہل ایمان دل وجان سے آپ ﷺ کی اطاعت کریں اور منافقین کی طرح آپ ﷺ پر طعن وتشنیع کر کے آپ ﷺ کو ایذا اور تکلیف نہ پہنچائیں۔ گزشتہ رکوع میں نکاح زینب ؓ کے متعلق منافقین کے طعن کا جواب دیا تھا اب ان آیات میں اہل ایمان کو ہدایت فرمائی کہ تم کو چاہئے کہ نبی کی جلالت شان کو ملحوظ رکھو اور منافقین کی طرح اللہ کے رسول کو کوئی ایذا نہ پہنچاؤ۔ نبی تمہارے روحانی باپ ہیں دل وجان سے ان کے ادب اور احترام کو ملحوظ رکھو چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ اللہ کو بہت یاد کرو اس کی یاد سے کسی وقت غافل نہ ہوؤ۔ اور سب سے افضل ذکر لا الہ الا اللہ کا ہے اور اس کے بعد ذکر تسبیح وتحمید ہے چناچہ فرماتے ہیں اور خاص کر صبح وشام اس کی تسبیح و تقدیس کیا کرو ان دو وقتوں میں عالم کی وضع میں عظیم تغیر اور انقلاب ظاہر ہوتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تغیرات اور انقلابات اس قدرت کاملہ کے کرشمے ہیں اور اس کی ذات ہر تغیر اور بلندی اور پستی سے پاک ہے وہ ایسا خدا ہے کہ جو خود بھی تم پر اپنی رحمت بھیجتا ہے اور اس کے حکم سے اس کے فرشتے بھی تمہارے لئے دعا رحمت کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا اس طرح تم پر رحمت بھیجنا اور فرشتوں کو تمہارے لئے رحمت کا حکم دینا۔ قال اللہ تعالی۔ الذین یحملون العرش ومن حولہ یسبحون بحمد ربہم ویومنون بہ ویستغفرون للذین امنوا ربنا وسعت کل شیء رحمۃ وعلما فاغفر للذین تابوا واتبعوا سبیلک وقہم عذاب الجحیم۔ اس لئے ہے تاکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس طرح کی رحمت اور عنایت سے تم کو جہالت اور معصیت کی تاریکیوں سے نکال کر نور ہدایت میں لے آوے اور ظلمت کفر سے نور ایمان کی طرف اور ظلمت نفاق سے نور اخلاص کی طرف اور ظلمت معصیت سے نور طاعت کی طرف یعنی اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہے کہ اپنی رحمت اور عنایت سے اور پھر فرشتوں کو بھی ان کے لئے دعائے مغفرت و رحمت کا حکم دیتا ہے آج تو اس کے کرم کی یہ حالت ہے اور کل جب مومنین اس کے حضور میں حاضر ہوں گے۔ مرنے کے وقت یا قبر سے اٹھنے کے وقت یا جنت میں داخل ہونے کے وقت اللہ کی طرف سے ان کا خیر مقدم یعنی تحیہ کرامت سلام ہوگا جب (ف 1) ملک الموت مومن کی روح قبض کرنے کے لئے آتا ہے تو پہلے اسے سلام کرتا ہے اور خدا کی طرف سے سلام پہنچاتا ہے۔ زجاج (رح) کہتے ہیں کہ یہ سلام درحقیقت سلامتی کی خوشخبری ہوتی ہے اللہ تم کو تمام آفات سے سلامت رکھے گا اور جب قیامت کے دن قبروں سے اٹھیں گے اس وقت فرشتے ان کو سلام کریں گے اور جنت کی بشارت سنائیں گے اور جنت میں داخل ہونے کے بعد فرشتے ان کی ملاقات کے لئے آئیں گے اور ان کو سلام کریں گے۔ 1 کما روی عن البراء بن عازب قال۔ تحیتہم یوم یلقونہ سلام فیسلم ملک الموت علی المومن عند قبض روحہ لا یقبض روحہ حق یسلم علیہ۔ تفسیر قرطبی ص 199 ج 14۔ وروی عن ابن مسعود انہ قال اذا جاء ملک الموت یقبض روح المومن قال ربک یقرئک السلام۔ روح المعانی ص 41 ج 22۔ والملئکۃ یدخلون علیہم من کل باب سلام علیکم بما صبرتم اور جب دار کرامت میں پہنچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے اور اللہ کی طرف سے ان پر سلام ہوگا۔ سلام قولا من رب رحیم۔ رواہ ابن ماجہ۔ اور اس کے علاوہ اللہ نے اہل ایمان کے لئے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے جو ان کو وہاں عطا ہوگا فقط جانے کی اور وہاں پہنچنے کی دیر ہے وہاں پہنچے اور ملا۔ اب آئندہ آیات میں اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کی صفات کا ذکر فرماتے ہیں جن پر ایمان لانے کی بدولت یہ لوگ جہالت اور ضلالت کی ظلمت سے نکل کر نور ہدایت میں داخل ہوئے اور جس کے اتباع کی برکت سے آخرت میں ان نعمتوں اور کرامتوں کے مستحق ہوئے ورنہ جو لوگ اس نبی پر ایمان نہیں لائے اس وقت ان کی ذلت اور خواری سب کے سامنے ہوگی چناچہ فرماتے ہیں۔ اے نبی تحقیق ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اس شان سے کہ آپ قیامت کے دن گواہ ہوں گے۔ قیامت کے دن آپ ﷺ گواہی دیں گے کہ یہ گروہ ایمان لایا اور اس گروہ نے کفر کیا اور آپ کو خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا اہل ایمان کو جنت کی خوشخبری سنائیں اور کافروں کو عذاب دوزخ سے ڈرائیں اور اس شان سے بھیجا کہ آپ بحکم خداوندی لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیں اور ہم نے آپ کو ہدایت کا چمکتا ہوا چراغ بنا کر بھیجا یعنی آفتاب ہدایت بنا کر بھیجا جس کی روشنی سارے عالم میں پھیل گئی۔ اور حق اور باطل کا فرق واضح ہوگیا پس اگر کافر اندھے ہوگئے تو قصور ان کا ہے لہٰذا آپ ﷺ ان اندھوں کو تو چھوڑئیے اور اہل ایمان کو جنہوں نے اس نور ہدایت کو قبول کیا ان کو خوشخبری سنا دیجئے کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بڑا ہی فضل ہے اور اے نبی آپ مکہ کے کافروں اور مدینہ کے منافقوں کی بات نہ ماننا یہ لوگ اندھے ہیں اور تاریکی میں غرق ہیں اور ان کافروں اور منافقوں کی ایذا کو چھوڑئیے یعنی اس کی پرواہ نہ کیجئے اور اللہ پر بھروسہ رکھئے اور اللہ کافی کارساز ہے ان کافروں اور منافقوں کی طعن وتشنیع کی طرف التفات نہ کیجئے۔ آپ ﷺ کا اللہ کارساز ہے۔
Top