Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zukhruf : 85
وَ تَبٰرَكَ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا١ۚ وَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ١ۚ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
وَتَبٰرَكَ : اور بابرکت ہے الَّذِيْ : وہ ذات لَهٗ : اس کے لیے ہے مُلْكُ السَّمٰوٰتِ : بادشاہت آسمانوں کی وَالْاَرْضِ : اور زمین کی وَمَا بَيْنَهُمَا : اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے وَعِنْدَهٗ : اور اسی کے پاس ہے عِلْمُ السَّاعَةِ : قیامت کا علم وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ : اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے
اور وہ بہت بابرکت ہے جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان دونوں میں ہے سب کی بادشاہت ہے اور اسی کو قیامت کا علم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے
85۔ 89۔ مشرکین مکہ کی یہ مورتیں ہیں وہ فرشتے اللہ کے رو برو اپنی پوجا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جو کوئی ان مورتوں کی پوجا کرے گا تو جن فرشتوں کی یہ مورتیں ہیں وہ فرشتے اللہ کے رو برو اپنی پوجا کرنے والوں کی سفارش کریں گے۔ یہ مشرک لوگ قیامت کے توقائل نہیں تھے اس لئے اس سفارش کا مطلب ان لوگوں کے نزدیک یہ تھا کہ دنیا کی بہبودی کے باب میں فرشتے ان لوگوں کی سفارش کریں گے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس طرح زمین میں اللہ کی مخلوقات ہے اسی طرح آسمان پر فرشتے ہیں کیونکہ آسمان و زمین دونوں میں اللہ کا ہی راج ہے اور اس کے حکم کے آگے سب عاجز اور بےاختیار ہیں اس واسطے ایسی بےاختیار مخلوقات میں سے نہ کسی کو اس کی عبادت میں شریک ٹھہرایا جاسکتا ہے نہ اس کی بغیر مرضی کوئی کسی کی سفارش کرسکتا ہے سورة الانبیا میں گزر چکا ہے کہ فرشتے رات دن اللہ کی عبادت سے کبھی نہیں تھکتے۔ معتبر سند کی ابوذر کی روایت ترمذی 1 ؎ اور ابن ماجہ کے حوالہ سے ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول۔ ﷺ نے فرمایا سارے آسمانوں میں کہیں چار انگل کی جگہ بھی ایسی خالی نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ عبادت الٰہی میں مصروف نہ ہو سورة انبیاء کی آیتوں اور ابوذر کی اس حدیث سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ سارے آسمانوں کے فرشتوں کا ہر وقت کا مشغلہ جب خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے تو وہ ان مشرکوں کے شرک کو کب پسند کرسکتے ہیں چناچہ سورة السبا میں گزرا کہ جن فرشتوں کی مورتوں کو یہ مشرک پوجتے ہیں قیامت کے دن وہ فرشتے ان مشرکوں کی صورت سے بیزار ہوجائیں گے اسی واسطے فرمایا کہ بارگاہ الٰہی میں سفارش تو وہ کرسکتا ہے کہ جس کے دل میں اللہ کی وحدانیت کا یقین اور زبان پر اس وحدانیت کا اقرار ہو ان مشرکوں کی صورت سے بیزار ہیں پھر ان مشرکوں کی سفارش کون کرے گا اس کو یہ مشرک کسی سند سے بیان کریں اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں قیامت کے آنے کا جو وقت ٹھہر چکا ہے اس وقت قیامت ضرور آنے والی ہے اور اس دن اس شرک کی جواب دہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے رو برو ضرور حاضر ہونا پڑے گا اور سوا پچھاتے کے اس دن ان لوگوں کو اور کچھ کام نہ ہوگا لیکن وہ بےوقت کا پچھتاوا ان لوگوں کے کچھ کام نہ آئے گا پھر اپنے رسول کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا اے رسول اللہ کے اگر تم ان لوگوں سے پوچھو گے کہ تم لوگوں کو کس نے پیدا کیا تو سوا اس کے ان کے پاس اور کچھ جواب نہیں کہ یہ لوگ اللہ کو اپنا خالق بتائیں گے اس کے بعد اپنے خالق کو چھوڑ کر غیروں کو معبود ٹھہرانے کا ان کے پاس کچھ جواب نہیں ہے۔ وقیلہ یا رب ان ھو لاء قوم لا یومنون مفسروں نے اس کے دو مطلب بیان کئے ایک تو یہ کہ وقیلہ میں داؤقسم کا لیا جائے اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے شکایت کے طور پر یہ جو کہا کہ اے رب یہ لوگ باوجود ہر وقت کی نصیحت کے کسی طرح راہ راست پر نہیں آتے اللہ کے رسول کا یہ قول ایسا سچا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی قول کی قسم کھا کر اس کی صداقت کو جتلاتا ہے۔ آیت کا یہ مطلب تفسیر 1 ؎ مدارک کے موافق ہے اور شاہ صاحب نے اپنے مرادی ترجمہ میں اسی تفیر کو لیا ہے۔ مشہور سات قرأتوں میں عاصم بن بہدلہ کی قرأت بھی یہ ہے۔ قرأت کے باب میں ان عاصم بن بہدلہ کے قول کا بڑا اعتبار ہے اوپر گزر چکا ہے کہ حدیث کے باب میں اگرچہ بعض علما نے ان عاصم کو ضعیف کہا ہے لیکن امام احمد اور ابوزرعہ نے ان عاصم کو ثقہ اور ابوحاتم نے معتبر قرار دیا ہے۔ دوسرا مطلب آیت کا یہ ہے کہ وقیلہ کو انا لا نسمع سرھم و نجواھم سے متعلق کیا جائے۔ اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ان مشرکوں کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بھید اور مشوروں اور اپنے رسول کی شکایت کو نہیں سنتا وہ سب کچھ سنتا ہے لیکن اس کے انتظام میں ہر کام کا وقت مقرر ہے اس واسطے اس نے وقت مقررہ کے آنے تک ان سرکش لوگوں کو مہلت عطا کرکے اپنے رسول کو درگزر کا حکم دیا ہے مہلت کے زمانہ میں اگر اگر یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو وقت مقررہ پر اپنی اسی سرکشی کا نتیجہ اچھی طرح معلوم کرلیں گے۔ یہ مطلب تفسیر ابن جریر کے موافق ہے۔ صحیح بخاری 2 ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ ؓ اشعری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے نافرمان لوگوں کو مہلت دیتا ہے جب مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو ان کو ایسے عذاب میں پکڑ لیتا ہے جس سے وہ پھر بچ نہیں سکتے اسی طرح صحیح بخاری 3 ؎ و مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک کی حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے کہ بدر کی لڑائی میں مشرکین مکہ میں کے بڑے بڑے سرکش نہایت ذلت سے مارے گئے اور مرنے کے ساتھ ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتلانے کے لئے اللہ کے رسول نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو سچا پا لیا۔ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت کے موافق چودہ پندرہ برس تک اہل مکہ کو مہلت دی لیکن جب مہلت کے زمانہ میں مشرکین مکہ کے سرکش لوگ اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو بدر کی لڑائی کے وقت دنیا و آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوگئے جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے جدا ہوتے وقت سلام کا برتاؤ کیا تھا جس کا ذکر سورة مریم میں گزرا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں اپنے رسول ﷺ کو سلام کے برتاؤکا حکم دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب باوجود رات دن کی نصیحت کے اے قوم کے سرکش لوگو تم اپنی عادتوں سے باز نہیں آئے تو تم کو اور تمہاری عادتوں کو سلام ہے تم جانو اور تمہاری عادتیں اب آخر وہ وقت آنے والا ہے کہ تم لوگ اپنی ان بدعادتوں کا نتیجہ معلوم کرلو گے۔ اگرچہ بعض مفسروں نے جہاد کے حکم سے آیت کے ٹکڑے فاصفح عنہم کو منسوخ قرار دیا ہے لیکن اس تفسیر میں ایک جگہ یہ بیان کردیا گیا ہے کہ جہاد کے حکم سے در گزر کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہے۔ (1 ؎ ترمذی شریف باب لو تعلمون ما اعلم الخ ص 66 ج 2۔ ) (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 137 ج 4۔ ) (2 ؎ بخاری شریف باب وکذلک اخذربک اذا اخذ القرے ص 678 ج 2۔ ) (3 ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص 169۔ )
Top