Ahsan-ut-Tafaseer - An-Najm : 31
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۙ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰىۚ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ ہی کے لیے ہے مَا : جو کچھ فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ ۙ : اور جو کچھ زمین میں ہے لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ : تاکہ بدلہ دے ان لوگوں کو اَسَآءُوْا : جنہوں نے برا کیا بِمَا عَمِلُوْا : ساتھ اس کے جو انہوں نے کام کیے وَيَجْزِيَ الَّذِيْنَ : اور جزا دے ان لوگوں کو اَحْسَنُوْا بالْحُسْنٰى : جنہوں نے اچھا کیا ساتھ بھلائی کے
اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے (اور اس نے خلقت کو) اس لئے (پیدا کیا ہے) کہ جن لوگوں نے برے کام کئے ان کو ان کے اعمال کا (برا) بدلہ دے اور جنہوں نے نیکیاں کیں ان کو نیک بدلہ دے
31۔ 32۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمیان میں ہر طرح کی حکومت اور بادشاہت اللہ تعالیٰ کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو بےفائدہ کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ اس جہان کے بعد پھر دوسرا جہان پیدا کیا جائے اور اس میں نیک و بد کی جزا و سزا کی جائے پھر نیکیوں کی نشانیاں بتائیں کہ وہ کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں۔ کبیرہ گناہ کی تفسیر اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں جس گناہ پر حد شرعی ہے یا عقبیٰ میں جس گناہ پر عذاب کا وعدہ آیا ہے وہ گناہ کبیرہ 1 ؎ ہے۔ جس کبیرہ گناہ کی شریعت میں مذمت زیادہ ہے وہ فاحشہ ہے۔ مثلاً ہمسایہ کی عورت سے بدکاری کرنا بہ نسبت عام بدرکاری کے اس کی مذمت شریعت میں زیادہ ہے غرض فاحشہ کو خاص قسم کے گناہوں میں منحصر کردینا اکثر علماء کے برخلاف ہے جمہور مفسرین نے لفظ لمم کے معنی صغیرہ گناہ کے لئے ہیں اور بعض مفسروں نے لمم کے معنی گناہ کے ارادہ اور قصد کے بھی کئے ہیں۔ اسی واسطے تینوں ترجموں میں یہاں اختلاف ہے۔ فارسی اور اردو کا مرادی ترجمہ جمہور کے قول کے موافق ہے اور اردو کا لفظی ترجمہ بعض مفسروں کے قول کے موافق ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے صغیرہ گناہ کی تعریف یہ کی ہے کہ جس گناہ پر حد شرعی دنیا میں اور عذاب کا وعدہ آخرت میں نہ ہو وہ گناہ صغیر ہے۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ جو لوگ کبیرہ گناہوں سے بچتے رہیں گے اگر ان سے کچھ صغیرہ گناہ ہوا تو اور نیک عملوں کے طفیل سے وہ صغیرہ گناہ خود بخود معاف ہوجائیں گے۔ چناچہ فرمایا ان الحسنات یذھبن السیئات اور کبیرہ گناہ کرکے کوئی شخص دنیا میں توبہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے اور اس کی رحمت بہت بڑی ہے اور کبیرہ گناہ کرکے بغیر توبہ کے کوئی شخص مرجائے گا اور وہ کبیرہ گناہ شرک سے کم درجہ کا ہوگا تو بھی اللہ چاہے گا تو بخش دے گا غرض انسان کے دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے جب اولاد آدم کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پشت سے نکالا تھا۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ یہ گروہ جنتیوں کا ہے اور وہ گروہ دوزخیوں کا۔ اور ہر ایک انسان کا بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اسی وقت اس نیک و بد عمل اور خاتمہ کا حال اللہ کے حکم سے اللہ کا فرشتہ لکھ لیتا ہے۔ اسی واسطے فرمایا کہ کسی کو اپنے متقی ہونے پر غرور نہیں کرنا چاہئے کیونکہ جس کا انجام اور خاتمہ متقیوں کے ساتھ ہونے والا ہے اللہ تعالیٰ کو ہی خوب معلوم ہے۔ صحیح 3 ؎ مسلم میں زینب بنت ابی سلمہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک صحابی ؓ نے اپنی لڑکی کا نام نیکی رکھا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اس لڑکی کا نام بدل کر زینب رکھ دیا اور فرمایا جس کا انجام نیک ہونے والا ہے اس کا حال اللہ کو ہی خوب معلوم ہے۔ صحیح 1 ؎ بخاری ‘ صحیح مسلم ‘ مسنداحمد ‘ ابو دائود ‘ ابن ماجہ وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جو کوئی شخص کسی شخص کے نیک اور متقی ہونے کی تعریف کرے تو اس کو چاہئے کہ یہ کہہ دے کہ میں اپنے گمان میں اس شخص کو نیک اور متقی جانتا ہوں اور اصل حال اللہ ہی کو معلوم ہے۔ ترمذی 2 ؎‘ ابوداؤد و موطا وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ کرام نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ حضرت جب جنتی ہونا اور دوزخی ہونا تقدیر الٰہی پر منحصر ہے تو عمل سے آخر کیا فائدہ ہے آپ نے فرمایا جو لوگ علم الٰہی میں جنتی ٹھہر چکے ہیں مرنے سے پہلے وہ بد عمل بھی کرلیں تو ممکن ہے لیکن خاتمہ ان لوگوں کا ضرور نیک حالت پر ہوتا ہے اور جو لوگ علم الٰہی میں دوزخی ٹھہر چکے ہیں بیچ میں وہ لوگ کچھ نیک عمل بھی کرلیں تو ممکن ہے لیکن خاتمہ ایسے لوگوں کا ضرور بری حالت پر ہوتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ شریعت میں خاتمہ کا بڑا اعتبار ہے اور خاتمہ ہی کو علم الٰہی کا نتیجہ شرع میں قرار دیا گیا ہے اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خاتمہ سے پہلے متقی ہونے کے غرور سے منع فرمایا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ کسی کو اپنا آخری وقت معلوم نہیں کہ موت کب اور کونسی گھڑی آجائے اس واسطے جہاں تک ہو سکے آدمی کو ہر وقت نیک کام میں لگا رہنا چاہئے تاکہ جب آخری وقت ایک دم کے دم میں آجائے وہ بھی نیک حالت کا ہو۔ (1 ؎ تفیرہ الدر المنثور ص 127 ج 6۔ ) (3 ؎ صحیح مسلم باب استحباب تغیبر الاسم القبیح الخ 208 ج 2۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری باب ماجاء فی قول الرجل وینک ص 910 ج 2۔ ) (2 ؎ جامع ترمذی باب ماجاء ان الاعمال بالخواتیم ص 45 ج 2۔ )
Top