Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 101
تِلْكَ الْقُرٰى نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآئِهَا١ۚ وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ١ۚ فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ١ؕ كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِ الْكٰفِرِیْنَ
تِلْكَ : یہ الْقُرٰي : بستیاں نَقُصُّ : ہم بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تم پر مِنْ : سے اَنْۢبَآئِهَا : ان کی کچھ خبریں وَلَقَدْ : اور البتہ جَآءَتْهُمْ : آئے ان کے پاس رُسُلُهُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : نشانیاں لے کر فَمَا : سو نہ كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا : وہ ایمان لاتے بِمَا : کیونکہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے كَذٰلِكَ : اسی طرح يَطْبَعُ : مہر لگاتا ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر قُلُوْبِ : دل (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
یہ بستیاں ہیں جن کے کچھ حالات ہم تم کو سناتے ہیں اور ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں لیکر آئے۔ مگر وہ ایسے نہیں تھے کہ جس چیز کو پہلے جھٹلا چکے ہوں اسے مان لیں اسی طرح خدا کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔
(101 ۔ 102) ۔ اوپر حضرت نوح ( علیہ السلام) کی امت کا حال تھا کہ انہوں نے نبی وقت کا کہنا نہ مانا آخر طوفان سے ہلاک ہوگئے اسی طرح حضرت ہود (علیہ السلام) کی امت قوم عاد سخت آندھی سے اور حضرت صا ( علیہ السلام) لح کی امت قوم ثمود کڑک کی سخت آواز اور زلزلہ سے اور حضرت لوط ( علیہ السلام) کی امت پتھروں کے مینہ سے اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی امت زلزلہ اور انگارے برسنے سے جو ہلاک ہوئی ان سب کا حال بیان فرما کر اس آیت میں آنحضرت کی تسکین اور قریش کی تنبیہ خدا تعالیٰ نے جو فرمائی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کر قریش بھی نبی وقت کی نصیحت نہ مانیں گے تو جس طرح گذشتہ امتوں کی بستیاں غارت ہوگئی ہیں اسی طرح یہ بھی غارت ہوجاویں گے غرض اوپر کئی رکوع میں جو قصے پچھلے انبیاء اور پچھلی امتوں کے اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائے یہ آیت ان سب قصوں کا نتیجہ ہے فما کانوالیومنوا بما کذبوا من قبل اس کا مطلب یہ ہے کہ علم ازلی الہی میں پہلے ہی یہ معلوم ہوچکا تھا کہ یہ لوگ ایمان نہ لاویں گے اس واسطے باوجود انبیاء کی نصیحت کے یہ لوگ ایمان نہ لائے اور یوم الیشاق میں اللہ کی توحید کا اقرار جو انہوں نے کیا تھا اس عہد پر قائم نہ رہے حضرت آدم (علیہ السلام) کی اور اولاد آدم ( علیہ السلام) کی پشت سے دنیا میں پیدا ہونے والی سب ارواحوں سے اللہ تعالیٰ نے توحید کا عہد لیا تھا جس کا ذکر اس سورة میں آگے آوے گا اسی عہد کے دن کو یوم الیشاق کہتے ہیں اس عہد کے موافق اللہ تعالیٰ ہر ایک روح کو اسلام پر پیدا کرتا ہے پیدا ہونے کے بعد جس نے سچے دل سے وہ عہد کیا تھا وہ علم ازلی الہی میں اس کا اسلام کی حالت میں مرنا معلوم ہوچکا تھا وہ اسلام پر قائم رہتا ہے ورنہ کوئی شیطان کے بہکانے یا کافر ماں باپ کی صحبت سے سرے سے ایمان ہی نہیں لاتا اور کوئی عارضی طور پر ایمان لاکر اخیر کو اسی حالت کفر کے عمل کر کے مرتا ہے جو حالت علم ازلی الٰہی میں پہلے سے معلوم ہوچکی ہے اسی واسطے شریعت میں خاتمہ کا اعتبار ہے بیچ کی عارضی حالت کا اعتبار نہیں ہے اور آخری حالت کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کے دل پر اللہ نے مہر لگادی ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث کی مثال اچھی بری زمین کی فرمائی ہے اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ بہت لوگ ساری عمر رمل جنت کے کام کرتے ہیں یہاں تک کہ جنت میں اور ان میں کچھ فرق رہ جاتا ہے آخر کو وہ لوگ مرتے ہیں اسی طرح بہت لوگ تمام عمر اہل دوزخ کے کام کرکے جنتی ہو کر مرتے ہیں صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ہر بچہ کو اللہ تعالیٰ اسلام کی خصلت پر پیدا کرتا ہے پیدا ہونے کے بعد اس بچہ کے ماں باپ اس کو اپنے جیسا یہودی یا نصرانی یا آتش پرست بنالیتے ہیں مسلم میں حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں ہر ایک بچہ کو خصلت اسلام اور توحید پر پیدا کرتا ہوں پھر اس کے بڑے ہونے پر شیطان اس کو کسی اور راستہ سے لگا دیتا ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے یوم الیشاق میں توحید کا عہد لیا ہے اسی طرح تسلیم رسالت ہر نبی وقت کا بھی عہد لیا ہے اور روحوں سے اسی روز فرمایا ہے کہ دیکھوں اس یوم الیشاق کا عہد یاد دلانے کو انبیاء تمہارے پاس آویں گے ان کی اطاعت ضرور کرنا لوگوں نے اس کا اقرار بھی اللہ کے روبرو کرلیا ہے اس لئے جو بچہ چھوٹی عمر میں مرجاتا ہے اور دوسرے عہد کے پانے کی نوبت اس کو نہیں پہنچتی اور تکلیفات شرعیہ اور اطاعت نبی وقت کے حاصل کرنے کا موقعہ اس کو میسر نہیں آتا بلکہ اس موقعہ کے میسر آنے کے پہلے وہ مرجاتا ہے اس کی نجات کے لئے پہلا یوم المیثاق کا عہد کافی ہوجاتا ہے اور جو شخص تمیز کی عمر پانے کے بعد نبی وقت کی اطاعت نہ کرے۔ اس کا پہلے کا عہد بھی جھوٹا اور نام کافی متصور ہو کر اس سے مؤاخذہ کیا جاتا ہے تفسیر ابن جریر میں روایت ہے ضحاک بن مزاحم کا چھ روز کا ایک لڑکا مرگیا اس لڑکے کو قبر میں اتارتے وقت ضحاک نے لوگوں سے کہا اس لڑکے کے کفن کا بندہن کھول دینا تاکہ سوال کے وقت اس کو بیٹھنے میں آسانی ہو لوگوں نے کہا اتنے چھوٹے بچے سے کیا سوال ہوگا ضحاک نے کہا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اتنے چھوٹے بچوں سے میثاق کی توحید کا قبر میں سوال ہوتا ہے اتنے عمر والے بچوں کو جو اطاعت نبی کا موقعہ نہ پاویں جس کو دوسرا میثاق کہتے ہیں یہ پہلا میثاق کافی ہے اور جو میثاق ثانی کا موقعہ پاکر اس کا پابند نہ ہو اس کا میثاق اولیٰ کافی اور جھوٹا ہے اس باب میں ابن جریر نے چند آثار صحابہ نقل کر کے بعض آثار کو بعض سے قوت دی اور صحیح کہا ہے اور یہ ایک مسئلہ ہے کہ ایسے مسائل میں آثار صحابہ کو مرفوع حدیث کا حکم ہے غرض اس عہد کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اکثر لوگوں کو ہم نے بدعہد پایا جس کا مطلب اوپر کی حدیثوں کے موافق یہ ہے کہ بعضے لوگ تو سرے سے باوجود انبیاء کی نصیحت کے ایمان ہی نہیں لائے اور بعضے لوگ آخری عمر میں بدعہد ہو کر مرگئے تفسیر سدی میں ہے کہ جس دن روحوں سے اللہ تعالیٰ نے عہدالیا اس دن ان روحوں نے جو اللہ کے علم میں ایمان دار ٹھہر چکی تھیں تہہ دل سے اللہ کی توحید کا اقرار کیا اور جو روحیں اللہ کے علم میں دنیا میں آنے کے بعد ایمان دار نہیں ٹھہریں تھیں انہوں نے اوپر کے دل سے اور روحوں کے دیکھا دیکھی منافقوں کے ایمان کی طرح توحید کا اقرار کرلیا وہی لوگ دنیا میں آن کر باوجود انبیاء کی نصیحت کے ایمان نہ لائے یا لائے تو منافق رہے معتبر سند سے ترمذی ابوداؤد وغیرہ میں حضرت عمر ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس وقت اللہ تعالیٰ نے یوم المیثاق میں آدم اور اولاد آدم کی پشت سے روحوں کو نکالا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق جنتی اور دوزخی روحوں کو الگ الگ کر کے یہ فرما دیا تھا کہ ان سب روحوں میں اس قدر روحیں جنتی لوگوں کی ہیں اور اس قدر روحیں دوزخی لوگوں کی اس حدیث سے سدی کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ علم ازلی میں جو لوگ دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے دوزخی ٹھہرے اس حدیث کے موافق ان کا یوم المیثاق کا عہد علم الٰہی میں سچا عہد نہیں تھا یہی مطلب سدی کے قول کا ہے دل پر زنگ کی مہر لگ جانے کی ابوہریرہ ؓ کی حدیث اوپر گذر چکی ہے وہی حدیث ان آیتوں کے مہر کے ذکر کی تفسیر ہے جن ضحاک بن مزاحم کا ذکر اوپر گزرا یہ ضحاک طبقہ اعمش کی تابعیوں میں ہیں تقریب میں ان کو صدوق لکھا ہے اور امام احمد (رح) نے ان ضحاک کو ثقہ کہا ہے تفسیر کے باب میں ان ضحاک کا شمار سعید بن جبیر مجاہد عکرمہ کے طبقہ میں کیا جاتا ہے۔ سفیان ثوری کہا کرتے تھے کہ سعید بن جبیر مجاہد عکرمہ اور ضحاک تفسیر کے ماہر لوگوں میں ہیں ان چاروں سے تفسیر کی روایتیں لینی چاہئیں اگرچہ بعضے سلف کا قول ہے کہ ان ضحاک کو عبداللہ بن عباس ؓ سے ملاقات کا موقعہ نہیں ملا مگر اس بات پر سلف کا اتفاق ہے کہ سعید بن جبیر اور ان ضحاک سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے تفسیر کے باب کی روایتیں سعید بن جبیر سے حاصل کیں اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور ضحاک میں اگر واسطہ ہے تو سعید بن جبیر کا ایک ثقہ واسطہ ہے اسی واسطے سفیان ثوری نے ان ضحاک کو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے شاگردوں کی ذیل میں رکھا ہے :۔
Top