Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 101
تِلْكَ الْقُرٰى نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآئِهَا١ۚ وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ١ۚ فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ١ؕ كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِ الْكٰفِرِیْنَ
تِلْكَ : یہ الْقُرٰي : بستیاں نَقُصُّ : ہم بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تم پر مِنْ : سے اَنْۢبَآئِهَا : ان کی کچھ خبریں وَلَقَدْ : اور البتہ جَآءَتْهُمْ : آئے ان کے پاس رُسُلُهُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : نشانیاں لے کر فَمَا : سو نہ كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا : وہ ایمان لاتے بِمَا : کیونکہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے كَذٰلِكَ : اسی طرح يَطْبَعُ : مہر لگاتا ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر قُلُوْبِ : دل (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
یہ بستیاں ہیں جن کی سرگزشتوں کا کچھ حصہ ہم تمہیں سنا رہے ہیں۔ ان کے پاس ہمارے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تو وہ ایمان لانے والے نہ بنے بوجہ اس کے کہ وہ پہلے سے جھٹلاتے رہے تھے۔ اسی طرح اللہ ٹھپہ لگا دیا کرتا ہے کافروں کے دلوں پر۔
تِلْكَ الْقُرٰي نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗىِٕهَا ۚ وَلَقَدْ جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ ۚ فَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ ۭكَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِ الْكٰفِرِيْنَ۔ دلوں پر مہر کب لگتی ہے ؟ دلوں پر مہر کب لگتی ہے ؟ کس طرح کے لوگوں پر لگتی ہے اور بالآخر اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ اس آیت میں ان سوالوں کا جواب ہے۔ فرمایا کہ ہم نے قوموں کی جو سرگزشت تمہیں سنائی ہے لوگوں کو چاہیے کہ اس سے سبق لیں۔ فرمایا کہ ان کے پاس خدا کے رسول نہایت واضح نشانیاں لے کر آئے لیکن وہ ان پر ایمان لانے والے نہ بنے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے خدا کی آیتوں اور نشانیوں کو جھٹلاتے رہے تھے۔ آدمی کا قاعدہ ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی عام آیات سے روگردانی کا عادی ہوجاتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کا دل ایسا پتھر ہوجاتا ہے کہ رسولوں کے ذریعہ سے خاص نشانیاں بھی ظاہر ہوتی ہیں تو وہ بھی اس پر کارگر نہیں ہوتیں۔ فرمایا کہ یہ طریقہ ہے ہمارے ہاں دلوں پر مہر لگانے کا۔ دل کا کام عبرت پذیری، تفکر، تفکر اور تعقل ہے۔ اگر کوئی گروہ اس طرح اپنی خواہشوں کا اندھا بہرا مرید بن جاتا ہے کہ تزکیر و تنبیہ کے بعد بھی وہ دل کی آنکھیں نہیں کھولتا تو ایسے لوگوں کے دل بالآخر بالکل جپاٹ ہو کے رہ جاتے ہیں۔ یہ ملحوظ رہے کہ بما کذبوا، یہاں یومنوا، کا مفعول نہیں ہے بلکہ ‘ ب ’ بیان سبب کے لیے ہے۔
Top