Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 52
وَ لَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِكِتٰبٍ فَصَّلْنٰهُ عَلٰى عِلْمٍ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ جِئْنٰهُمْ : البتہ ہم لائے ان کے پاس بِكِتٰبٍ : ایک کتاب فَصَّلْنٰهُ : ہم نے اسے تفصیل سے بیان کیا عَلٰي : پر عِلْمٍ : علم هُدًى : ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لائے ہیں
اور ہم نے ان کے پاس کتاب پہنچادی ہے جس کو علم دانش کے ساتھ کھول کھول کر بیان کردیا ہے اور وہ مومنون کیلئے ہدایت اور رحمت ہے۔
(52 ۔ 53) ۔ اوپر منکر قرآن لوگوں کا ذکر فرما کر اس آیت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ مفصل اور مشرح کتاب ان کے پاس بھیج دی تاکہ ان مشرک اور کافروں کو کوئی عذر کر نیکا موقعہ نہ رہے اور ایمان والوں کے لئے یہ کتاب سراسر ہدایت اور رحمت ہوجاوے ہیں کتاب میں جو وعدہ عذاب کا ہے کیا منکر اس کے آنے کی راہ دیکھ رہے ہیں یہ قول مجاہد وغیرہ کا ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ یوم تاویل سے قیامت کا دن مراد ہے اس روز کافر چاہیں گے کہ کوئی ہماری سفارش کرے یا دنیا میں پھرجانا ہم کو نصیب ہو تو اچھے کام کریں غرض کہ اس دن اپنا نقصان ان کو معلوم ہوگا اور سب جھوٹ ان کا جو دنیا میں بناتے تھے بیکار ہوجاویگا فصلناہ کی جگہ بعضے سلف نے فقلنا پڑھا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ سب آسمانی کتابوں پر اس کتاب کو بزرگی ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور ان کے شاگرد مجاہد کے قول میں کچھ اختلاف نہیں ہے کیونکہ دنیا میں جن قوموں پر عذاب آیا ان کے حق میں وہ عذاب کا دن اور باقی کے حق میں قیامت کا دن دونوں عذاب کے ظہور کے وقت ہیں صحیح بخاری کے حوالہ سے مغیرہ ؓ بن شعیبہ کی حدیث گذر چکی ہے جس میں حضرت ﷺ نے فرمایا صاحب عذر شخص کا عذر سننا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اس واسطے اس نے آسمانی کتابیں نازل فرمائیں رسول بھیجے تاکہ کسی کو انجانی کا عذر باقی نہ رہے صحیح بخاری مسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث بھی گذر چکی جس میں حضرت ﷺ نے قرآن شریف کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی فرمائی ہے اسی طرح ترمذی وغیرہ کے حوالہ سے ابوبکرہ ؓ کی صحیح حدیث گذر چکی ہے جس میں حضرت ﷺ نے فرمایا نیک شخص وہ ہے جس نے بڑی عمر پائی اور نیک کاموں میں لگا رہا اور بد وہ شخص ہے جس نے بڑی عمر پائی اور برے کاموں میں لگارہا ان حدیثوں کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ اچھے لوگوں کو قرآن کی نصیحتوں سے ایسا ہی فائدہ ہے جیسا اچھی زمین کو مینہ کے پانی سے فائدہ پہنچاتا ہے اور برے لوگ قرآن شریف کی نصیحت سے ایسے ہی بےبہرہ ہیں جس طرح بری زمین مینہ کے پانی سے بےبہرہ رہتی ہے لیکن قرآن شریف میں ہر طرح کی نصیحت ایسی کردی گئی ہے کہ اس قدر نصیحت اور اسی نصیحت کے موافق عمل کرنے کی عمر پانے کے بعد کسی کو انجانی کے عذر کا موقعہ نہیں مل سکتا اس لئے دنیایا عقبے کے عذاب کے وقت یہ نافرمان لوگ اپنی نافرمانی پر بہت پچھتاویں گے اور عذاب الہی سے بچانے والا کوئی سفارشی ڈھونڈیں گے مگر سزا کے وقت کا مجرم کا پچھتانا نہ کچھ سود مند ہوسکتا ہے نہ بغاوت کے جرم کا کوئی سفارشی پیدا ہوسکتا ہے جس کے سبب سے نتجیہ یہی ہوگا کہ دنیایا عقبے کے عذاب کے وقت یہ لوگ اپنی مکڑائی کی باتیں تو سب بھول جاویں گے اور ان باتوں کے سبب سے بہت بڑا وبال ان کی جانوں پر پڑجاوے گا :۔
Top