Mutaliya-e-Quran - Al-A'raaf : 52
وَ لَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِكِتٰبٍ فَصَّلْنٰهُ عَلٰى عِلْمٍ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ جِئْنٰهُمْ : البتہ ہم لائے ان کے پاس بِكِتٰبٍ : ایک کتاب فَصَّلْنٰهُ : ہم نے اسے تفصیل سے بیان کیا عَلٰي : پر عِلْمٍ : علم هُدًى : ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لائے ہیں
ہم اِن لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کو ہم نے علم کی بنا پر مفصل بنایا ہے اور جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے
وَلَقَدْ جِئْنٰهُمْ [ اور ہم لائے ہیں ان کے پاس ] بِكِتٰبٍ [ ایک ایسی کتاب ] فَصَّلْنٰهُ [ ہم نے کھول کھول کر بیان کیا ہے جس کو ] عَلٰي عِلْمٍ [ علم (کی بنیاد ) پر ) هُدًى [ ہدایت دیتے ہوئے ] وَّرَحْمَةً [ اور رحمت ہوتے ہوئے ] لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ [ ایمان لاتے ہیں ] نوٹ ۔ 1: آج کل مساجد میں اماموں کا معمول ہوگیا ہے کہ عربی کے کچھ دعائیہ کلمات انہیں یاد ہوتے ہیں اور ختم نماز پر وہ انہیں پڑھ دیتے ہیں اور لوگ آمین کہہ دیتے ہیں ۔ اکثریت کو ان کلمات کا مطلب معلوم نہیں ہوتا ۔ اس سارے تماشہ کا حاصل چند کلمات کا پڑھنا ہوتا ہے، دعا مانگنے کی جو حقیقت ہے وہ یہاں پائی ہی نہیں جاتی ۔ دعا پڑھی نہیں جاتی بلکہ مانگی جاتی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی کو کلمات کے معنی معلوم ہوں اور وہ سمجھ کر کہہ رہا ہو ، لیکن اس کے لب و لہجہ میں تضرع یعنی عاجزی اور انکساری نہ ہو تو یہ دعا مانگنا نہیں ہے بلکہ مطالبہ پیش کرنا ہے ، جس کا کسی بندے کو کوئی حق نہیں ہے ۔ دعا کی روح تضرع ہے اور خفیہ یا آہستہ آواز سے مانگنا افضل اور قرین قبول ہے۔ کیونکہ بلند آواز سے دعا مانگنے میں تواضع اور انکساری کا باقی رہنا مشکل ہے۔ (معارف القرآن )
Top